ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایرانی پاسداران انقلاب کی قدس فورس کے سابق کمانڈر قاسم سلیمانی کے قتل کی برسی کے موقع پر ایرانی عہدیداروں کے بیانات میں کھلا تضاد پایا جا رہا ہے۔ ایک طرف ایران کی سیاسی قیادت ہے جو مسلسل امن کی مالا جپتی دکھائی دیتی ہے اور جنگ سے گریز کی باتیں کرتی ہے جب کہ دوسری طرف ایران کی عسکری قیادت بڑھ چڑھ کر جنگ کی باتیں کرتی اور خطے میں ایران مخالف قوتوں اور امریکیوں کو للکار رہی ہے۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق ایرانی پاسداران انقلاب کے سربراہ حسین سلامی نے کہا ہے کہ انتقام لینا جاری ہے اور یہ ایک نقطے تک محدود نہیں ہے۔ انہوں نے قاسم سلیمانی کے قتل کا سخت بدلہ لینے کے اپنے سابقہ عزم کا اعادہ کیا۔
ایرانی قدس فورس کے کمانڈر اسماعیل قا آنی نے امریکا کے اندر اہداف کو نشانہ بنا کر سلیمانی کا بدلہ لینے کی دھمکی دی۔ ایرانی سپریم لیڈر کے فوجی مشیر حسین دیہقان نے کہا کہ خطے میں تمام امریکی فوجی اڈے ایرانی میزائلوں کی رینج میں ہیں۔ انہوں نے ٹرمپ کو مشورہ دیا کہ وہ نئے سال کو امریکیوں کے غم میں تبدیل نہ کریں۔
ایرانی عدلیہ کے سربراہ ابراہیم رئیسی نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اب محفوظ نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جس نے بھی قاسم سلیمانی کو مارا اسے “اصل انتقام” کا انتظار کرنا چاہئے۔
تاہم دوسری طرف ایرانی سفارت خانے حالات کو پر سکون بنانے، جنگ سے گریز کرنے اور تہران کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے جمعہ کے روز اپنے کویتی ہم منصب کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایران جنگ نہیں چاہتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خطے میں کسی بھی ممکنہ مہم جوئی کے نتائج کا ذمہ دار امریکا ہوگا۔
ظریف نے جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا تھا کہ ہمیں عراق سے معلومات ملی ہیں کہ امریکا ایران پر حملے کی منصوبہ بندی کررہا ہے۔
حالیہ ایام میں ایران کی طرف سے کسی بھی حرکت کے جواب میں امریکا نے اپنے تین ‘بی 52’جنگی طیارے خلیجی ممالک میں تعینات کیے ہیں۔
ایرانی اور امریکی عہدیداروں کے مابین الفاظ کی جنگ عروج پر پہنچ گئی ہے۔ امریکی سنٹرل کمانڈ نے متنبہ کیا گیا کہ قاسم سلیمانی کے قتل کی برسی کے موقع پر کسی بھی ایرانی اقدام کا “فیصلہ کن ردعمل” ظاہر کیا جائے گا۔