اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سپریم کورٹ نے سینیٹ انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر تمام ایڈووکیٹ جنرلز، صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ اگر کوئی جماعت چاہے تو اپنی معروضات جمع کروا سکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے صدارتی ریفرنس پر سماعت کی۔ اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا ریفرنس میں سینیٹ الیکشن خفیہ رائے شماری سے نہ کرنے کا قانونی سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا آرٹیکل 226 کا اطلاق صرف آئین کے تحت ہونے والے الیکشن پر ہوتا ہے؟۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آپ چاہتے ہیں عدالت آئین اور قانون کے تحت ہونے والے انتخابات میں فرق واضح کرے۔ چیف جسٹس نے کہا چاروں ایڈووکیٹ جنرلز اور الیکشن کمیشن کے جواب کا جائزہ لینگے، چاروں صوبائی حکومتوں اور الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر رہے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کیا قومی اسمبلی کا انتخاب آئین کے تحت نہیں ہوتا؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا عام انتخابات الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت ہوئے ہیں آئین کے تحت نہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا آئین میں سینیٹ اور اسمبلی انتخابات کا ذکر ہے، انتخابات کیسے ہونے ہیں یہ بات الیکشن ایکٹ میں درج ہوگی،مقامی حکومتوں کے انتخابات کا آئین میں ذکر نہیں، الیکشن ایکٹ بھی آئین کے تحت ہی بنا ہے ایکٹ آئین پر غالب نہیں ہو سکتا، کیا کوئی قانون آئین سے بالاتر ہو سکتا ہے؟۔
جسٹس یحییٰ خان آ فریدی نے کہا سپریم کورٹ اس تنازعہ میں کیوں مداخلت کرے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا میثاق جمہوریت میں سیاسی جماعتوں نے ووٹوں کی خریدوفروخت روکنے پر اتفاق رائے کیا تھا،آپ اس معاملے پر تمام سیاسی جماعتوں کے مابین قومی اتفاق رائے کیوں پیدا نہیں کرتے۔
اٹارنی جنرل نے کہا حکومت نے اس بارے میں ایک آئینی ترمیم کا بل پیش کردیا ہے، یہ سیاسی مسئلہ نہیں قانونی ایشو پر عدالتی رائے طلب کی ہے۔
عدالت نے نوٹسز جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ فریقین اپنی معروضات تحریری طور پر بھی عدالت میں جمع کروائیں۔ کیس کی آئندہ سماعت گیارہ جنوری کو ہوگی۔