حامد میر صاحب سیئنر صحافی کا فوج بارے یکارڈ درست ہوتا، تو ہم آج کے جنگ اخبار میں شائع ہونے والے کالم ”قاضی صاحب اور مولانا صاحب” کو شاید ہم ایک صحافی کا تجزیہ مان کر صرف نظر کر جاتے ۔مگر حامد میر صاحب کے خمیر میں پاکستان فوج کی مخالفت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ان کے والد مرحوم وارث میر صاحب نے مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کی خانہ جنگی، بھارتی فوج کی مشرقی پاکستان پر فوج کشی اور شیخ مجیب کی اگر تلہ سازش، اس تکون سے لڑ کر پاکستان کو بچانے کی پاک فوج کوشش کے خلاف ،قوم پرستی کے جن کی پوجا کرتے ہوئے مخالفت کی تھی۔ بھارت کی کٹ پتلی، بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد نے وارث میر کو اس کی بنگلہ قومیت، مکتی باہنی اور شیخ مجیب کی سازش کی حمایت کرنے کے عوض انعام رکھا تھا۔یہ انعام حامد میر صاحب بنگلہ دیش ڈھاکہ وصول کرنے گئے تھے۔انعام وصول کرنے کے بعد نمک حلالی کرتے ہوئے اپنے ہی ملک کی فوج کی، اپنے مرحوم والد کی طرح برائی کی۔ کہا کہ پاکستان کی فوج پر جنگی جرا ہم کے مقدمے چلائے جائیں۔
کچھ دن پہلے اسلام آباد پریس کلب میںعبدالولی خان صاحب مرحوم کی نیشنل عوامی پارٹی نے ایک تقریب منعقد کی۔ حامد میر نے ولی خان کو شیخ مجیب کی طرح محب وطن قرار دیا۔ حامد میر نے کہا کہ ولی خان کو ملک کا غدار کہا جاتا ہے ۔ جب کہ وہ محب وطن تھا۔ہم نے اس موقعہ پر ایک کالم لکھ کر حامد میر کو ولی خان کو حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ دینے پر ان ہی کی نیشنل عوامی پارٹی کے ایک منحرف مرکزی لیڈر جناب جمعہ خان صوفی کی کتاب ”فریب ناتمام” سے کچھ پاکستان سے بغاوت کے کچھ واقعات لکھ کرحقیقت بیان کی۔ جسے اب دوبارہ بیان کر دیتے ہیں۔
جمعہ خان صوفی صاحب اپنی کتاب” فریب ناتمام” میں لکھتے ہیں کہ ولی خان نے سردار دائود کو میرے ذریعے پیغام دیا کہ پشاور سے کچھ پشتون پائلٹ پاکستان ایئر فورس کے جہاز اغوا کر کابل اُتریں گے ۔ انہیں پاکستان کے حوالے نہ کرنا۔ولی خان نے سردار دائود کومیرے ذریعے یہ بھی پیغام پہنچایا کہ اس وقت پاکستان کی فوج بھارت سے شکست کے بعد کمزور پڑھ چکی ہے۔ اس وقت وہ پشتونوں اوربلوچوں کے سامنے ٹہر نہیں سکے گی۔سردار دائود نے ولی خان کو پیغام پہنچایا میں پشتون زلمے کو دہشت گردی کی ٹرنینگ دینے کے لیے میںتیار ہوں۔پھر پشتون زلمے اور بلوچ کابل میں ٹرنینگ لینے گئے۔ ولی خان نے کابل میں پشتون اور بلوچوں دہشت گردوں کی سلامی بھی لی تھی۔ یہ دہشت گرد پاکستان میں اسلحہ سمیت داخل ہوئے۔
لاہور واپڈا دفتر پر بم مارا۔ درجن بھر لاہوری شہید ہوئے۔ سڑکوں ،پلوں، بسوں، بس اسٹینڈوں اور ٹیلیفون کی انسٹالیشن پر بم مارے گئے۔ حیات محمد شیر پائو کو شہید کیا۔بلوچستان میںگھات لگا کر پاک فوج حملے کیے۔ شاہ ایران نے بھٹو کو ہیلی کاپٹرز مدد میں دیے۔ جس سے دہشت گردوں پر حملے کیے گیے۔کچھ بلوچ پہاڑوں پر چڑھ گئے۔ اس بغاوت کے خلاف بھٹونے ولی خان پر بغاوت کا مقدمہ قائم کیا۔عدالت میں بغاوت کے ثبوت پیش کیے ۔ جنرل ضیاء نے بھٹو دشمنی میں ولی خان کو رہا کر دیا۔(حوالہ کتاب ” فریب ناتمام” مصنف ولی خان کی نیشنل عوامی پارٹی کے مرکزی منحرف لیڈر جمعہ خان صوفی) ان واقعات سے اندھے کو بھی ولی خان کی پاکستان کے ساتھ غداری ثابت ہوتی ہے ۔ جسے حامد میر محب وطن قرار دیتے ہیں۔
حامد میر پر کراچی میں کسی نے قاتلہ حملہ کیا۔ بغیر ثبوت کے فوج پر الزام لگا دیا۔جیو ٹی وی پر آٹھ گھنٹے پاکستان کی مایا ناز خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سربراہ کا نام لے کر اس کا فوٹو دیکھا کر جھوٹا پروپیگنڈا کیا۔ جیو ٹی وی نے بھارت کی ایما پر امن کی آشا چلا کر بانیِ پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے دو قومی نظریہ اور نظریہ پاکستان کی کھل کر مخالفت کی۔
حامد میر نے دشمنوں کے پروپیگنڈہ میں رنگ بھرنے کے لیے بلوچستان کے قدیر ماما کی بلوچستان سے اسلام آباد لانگ مارچ کے کی مکمل تشہیر کی۔ جیو ٹی وی پر ماما قدیر کا ٹی وی ٹاک شو کر کے ملک کی مایا ناز خفیہ ایجنسی کو مسنگ پرسن کا مورد الزام ٹھرایا۔ جب پاکستان کے خلاف دہشت گردی کرنیوالے کوئی تو افغانستان ،کوئی لندن اور کوئی بھارت میں بیٹھ کر اب بھی بلوچستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں۔ان کے دہشت گردانہ کاروائیوں کی وجہ سے آئے روز ہماری فوجی شہید ہو رہے ہیں۔
کیا پاکستان دشمن دہشت گردوں نے ہماری فوج کے گلے کاٹ کر ان سے فٹ بال نہیں کھیلا؟ دہشت پھیلانے کے لیے ان کی ویڈیو نہیں جاری کی؟ کوئٹہ میں ایک ساتھ دو دھماکے کر کے کئی درجن وکیلوں کو شہید نہیںکیا؟ مزاروں پر حملے کیے۔ آئے روز ہزار ہ قبیلے کے بے گنائوں کو شہید کرتے رہتے ہیں۔پشاور پبلک اسکول پر دہشت گردانہ حملے سے سیکڑوں ننھے منھے پھولوں کو مر جا نہیں دیا؟ پورے پاکستان میں گوریلا جنگ کر کے پاکستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے دہشت گرد، اگر کہیں خود بھی چھپ جاتے ہیں تو حامد میر پاک فوج کے خلاف بین لاقوامی ایجنڈے کا حصہ بنتے ہوئے اس میںرنگ بھرنے کے لیے مسنگ پرسن کے نام پر پاک فوج کو بدنام کرتے رہتے ہیں۔آج بھی جسٹس (ر) جاوید اقبال صاحب نے مسنگ متعلق میڈیا میں رپورٹ پیش کی۔
حامد میراب بڑی مہارت سے قاضی صاحب کے فوج مخالف بیان کا مولانا فضل الرحمان صاحب کے موجودہ باغیانہ بیان سے موازنہ کر کے قاضی صاحب ، بلکہ جماعت اسلامی کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔ مولانا صاحب اپنی فوج کو دھمکی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جیسے افغانستان سے امریکی فوج کا حشر کر کے نکالا ہے۔ایسا ہی تمھارا بھی حشر کریں گے۔جناب افغانستان میں تو توف تفنگ، راکت میزائل ، دنیا کے سب سے بڑھ بم گرا کر امریکا نے طالبان کی جائز حکومت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔قافہ کش افغانیوں نے امریکا کو ناکوں چنے چھبا کر اپنے ملک سے نکالا۔ کیا مولانافضل الرحمان کے بیان کا موازنہ افغانوں کے ساتھ کر کے اپنی فوج کو پاکستان ے نکالنا چایتے ہیں؟ قاضی صاحب اور مولانا کے فوج مخالف بیان میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
حامد میر کو معلوم ہونا چاہیے کہ جماعت اسلامی نے اپنے ملک کو بچانے کے مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کا ساتھ دیا۔ اس کو اپنے اس عمل پر فخر ہے۔ حسینہ واجد اپنے والد شیخ مجیب ، بھٹو اور اندرا گاندھی میں پرانی رنجشیں ختم کرنے کے معاہدے کے باوجود جعلی جنگی ٹربیونل ، جسے اقوام عالم نے بھی جعلی تسلیم کیا ہے، جماعت اسلامی کے نصف درجن مرکزی قیادت کو پھانسیوں پر چڑھا چکی ہے۔ فوج نے اس کے خلاف کوئی رد عمل نہیں دیا۔ مگر جماعت اسلامی نے پھر فوج کے خلاف مولاناجیسی سخت مخالفت نہیں کی۔ویسے بھی مولانا کی کبھی انگلی بھی پاکستان کے بچانے میں نہیں کٹی۔ جماعت اسلامی پر دکٹیٹر ایوب خان نے پاپندی لگائی تھی۔
مولانا مودودی کو ایک فوجی عدالت نے قادیانی مسئلہ پر موت کی سزا سنائی۔ مگر جب ١٩٦٥ء میں بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو سید مودودی اپنے پوری جماعت اسلامی کو دفاع پاکستان کے لیے پاک فوج کے حوالے کرنے کے لیے اسی فوجی ڈکٹیٹر ایوب کے پاس پہنچ گئے۔حامد میر نے سینئر صحافی عطا محمد تبسم صاحب کی سابق امیر سید منور حسن صاحب کے متعلق کتاب ” یادشتیں ”کا بھی حوالہ دے کر کچھ مخالطے ڈالنے کی کوشش کی۔ اس کتاب کی ترتیب میں راقم کے کچھ حصہ کا بھی مصنف نے ذکر کیا ہے۔میرے سامنے یہ کتاب درجنوں کی تعدا میں پڑی ہے ۔ گو کہ فوج نے سید منور حسن کے ایک جیو ٹی وی کے ایک اینکر کے انٹرویو میں بات کو توڑ مروڑ کر فوج مخالف بات نکالی۔مگر وقت نے ثابت کیا سید منور حسن کی باتیں درست تھیں۔ کتاب”یادشتیں” میں بھی فوج مخا لف کوئی بھی نامناسب بات نہیں۔
بھارت نے امریکا اوراسرائیل کی مدد سے پہلے الطاف حسین کو پاکستان کی معیشت کو ختم کرانے پر لگایا۔کلبھوشن یادیو اور اس کے نیٹ ورک کے ذریعے الطاف حسین کو فنڈ اور دہشت گردی کی ٹرنینگ دی۔ پھر امریکا نے تحریک طالبان پاکستان بنا کر پورے پاکستان میں دہشت گردی کی۔جسے ہماری فوج نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر شکست دی۔اب سپریم کورٹ نے نواز شریف کوسیاست سے تا حیات نا اہل قرار دیا۔نیب عدالت نے کرپشن پر سزا دی۔ کرپشن کے کیسز میں منی ٹرائیل دینے کے بجائے فوج اور عدلیہ کے خلاف ہو کر بھارت کے فوج مخالف بیانیہ کا معاون بن گیا ہے۔ مولانابھی ساری حدیں پار کر چکے ہیں۔
بھارت پہلے پاکستان کے دو ٹکڑے کر چکا۔ اب مذید دس ٹکڑے کرنے کی کھلے عام دھمکیاں دے رہا ہے۔پاکستان پر حملہ کر نے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ اپنے اکھنڈ بھارت کے ڈاکٹرائین پر مکمل عمل کرنا چاہتا ہے۔ ان حالات میں ملک کا دفاح کرنے والی مثالی قوت جماعت اسلامی کے مرحوم لیڈروں کے فوج مخالف بیان ڈھونڈ ڈھونڈ کر عوام کو فوج کے مخالف کرنے کے سامان مہیا کرنے والے حامد میر کو یاد رکھنا چاہے کہ جماعت اسلامی کے کارکن اس کی باریک بینی سے فوج مخالف مہم کا توڑ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حامد میر کا فوج کے بارے میں قاضی صاحب اور فضل الرحمان صاحب کا موزانے کا کالم میں افسانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔قاضی منور حسن اور جماعت کے فوج کے متعلق بیان قومی مفاد میں تھے، جبکہ نواز ، زرداری اور مولانا کے بیان ان کی ذات سے متعلق ہیں۔