بھارت: کووڈ ویکسین پر سوالات کیوں اٹھ رہے ہیں؟

Vaccine

Vaccine

ممبئی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں کووڈ۔ 19 کے خلاف ویکسین کی افادیت تو اپنی جگہ لیکن ماہرین اس سے پہلے ہی ان کی منظوری دیے جانے کے طریقہ کار پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔

بھارت نے کووڈ۔ 19 کے خلاف دو ویکسین کو منظوری دے دی ہے لیکن ماہرین ان کی منظوری دینے کے طریقہ کار پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ویکسینز کی افادیت کے حوالے سے تجربات کے ڈیٹا کو عام کیے بغیر انہیں منظوری دینا شبہات پیدا کرتا ہے۔ دوسری طرف بھارت میں کووڈ ویکسین لگانے کا سلسلہ اگلے ہفتے شروع ہونے جا رہا ہے اور اسے ٹیکے لگانے کی دنیا کی سب سے بڑی مہم قرار دیا جا رہا ہے۔

بھارت سرکار نے پونے میں واقع سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا (ایس آئی آئی) کی تیار کردہ آکسفورڈ۔ اسٹرازینیکا کی ویکسین’کووی شیلڈ‘ اور حیدرآباد میں واقع بھارت بایو ٹیک کی ویکسین ‘کوویکسین‘ کو منظوری دی ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی ویکسین کی افادیت کے حوالے سے جتنی معلومات عام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اتنی ان دونوں ویکسین کے سلسلے میں نہیں کی گئی ہے۔

کسی بھی ویکسین کے تیسرے مرحلے کے تجربات کے ڈیٹا کو کافی اہم سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کچھ لوگوں کو ویکسین دی جاتی ہے اور کچھ کو نہیں دی جاتی ہے اور پھر دونوں گروپوں میں بیماری کے پھیلنے کی شرح کا موازنہ کیا جاتا ہے اور یہ معلومات عام کی جاتی ہے۔

سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے اپنی ویکسین’کووی شیلڈ‘ کے برطانیہ اور برازیل میں ہونے والے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں لیکن بھارت میں 1600افراد پر کیے جانے والے ٹرائل کی تفصیلات کو عام نہیں کیا گیا۔ اس سے بھی زیادہ بڑے سوالات ‘کوویکسین‘ کے سلسلے میں اٹھ رہے ہیں۔ بھارت بایوٹیک اپنی اس ویکسین کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے لیے ابھی تک رضاکاروں کا اندراج ہی کر رہی ہے۔

ماہرین یہ سوال کررہے ہیں کہ آخر ایسے میں ان ویکسینز کو اجازت دینے کی جلدبازی کیا تھی؟۔ اتنی جلد بازی میں اجازت کیوں دی گئی؟۔ گزشتہ برس پندرہ اگست کو ہی بھارت بایو ٹیک کی ویکسین کو لانچ کردیے جانے کی خبر پھیلاتے ہوئے کہا جارہا تھا کہ بھارت ویکسین کی تیاری میں پوری دنیا پر بازی لے جائے گا۔

انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف بایو ایتھیکس کے سابق صدر ڈاکٹر اننت بھان کہتے ہیں،”منظوری دینے کے طریقہ کار میں اعتماد سازی بہت اہمیت کی حامل ہے۔ لیکن یہاں بہت سے ماہرین کو یقین ہی نہیں اور وہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ کیا یہ ویکسین واقعی موثر ثابت ہوگی۔ جن دیگر ممالک نے ویکسین کی افادیت کے حوالے سے ڈیٹا کو عام کیے بغیر ویکسین کو منظوری دی ہے وہ صرف روس اور چین ہیں۔” ڈاکٹر بھان کا مزید کہنا تھا ”دونوں ویکسینز کو منظوری دینے کے لیے جس طرح کی زبان استعمال کی گئی ہے وہ قانون سے زیادہ ادب کی زبان معلوم پڑتی ہے۔”

بھارت بایو ٹیک کے چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر ڈاکٹر کرشنا ایلا نے ‘کوویکسین‘ پر اٹھنے والے سوالات کا جواب دینے کے لیے پیر کے روز پریس کانفرنس کی۔ انہوں نے دعوی کیا کہ ‘کوویکسین‘ کووڈ۔19اور اس کی نئی قسم دونوں میں ہی موثر ثابت ہوگی اور جلد ہی یہ دعوی ثابت بھی ہو جائے گا۔ ڈاکٹر ایلا کا مزید کہنا تھا، ”ٹھیک ہے یہ ابھی ایک نظریہ ہے، لیکن مجھے صرف ایک ہفتے کا وقت دیجیے اور میں مصدقہ اعدادو شمار پیش کردوں گا۔”

حکومت نے اپنی جانب سے وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ‘کوویکسین‘ کو بیک اپ کے طور پر اجازت دی گئی ہے۔ کووڈ۔19 نیشنل ٹاسک فورس کے رکن ڈاکٹر رندیپ گلیریا کا کہنا تھا، ”اگر ہم دیکھیں گے کہ کیسیز میں اضافہ نہیں ہورہا ہے تو ہم ‘کووی شیلڈ‘ پر ہی انحصار کریں گے۔ جب بھارت بایو ٹیک کے ڈیٹا سامنے آجائیں گے اور اگر ہم نے ڈیٹا کو خاطر خواہ پایا تواسے بھی سیرم انسٹی ٹیوٹ کی ویکسین کی طرح ہی منظوری مل جائے گی۔ میرے خیال میں بھارت کے ڈرگس ریگولیٹر (ڈی سی جی آئی) نے ہری جھنڈی دے دی ہے کہ اگر ہمیں ضرورت ہو تو ہم ویکسین کا ذخیرہ کر سکتے ہیں۔”