2020 سے ہی ہم حکومت کے جانے اور پی ڈی ایم کے آنے کی بات سن رہے ہیں یہ پی ڈی ایم آخر ہے کیا اور کیوں حکومت کو چلتا کرنا چاہتی ہے بقول حکومت کے پی ڈی ایم ایک ایسا ٹولا ہے کہ جو چوروں ڈاکوؤں اور لٹیروں پر مبنی ہے جبکہ پی ڈی ایم کے بقول حکومت کا ووٹ چوروں اورسلیکٹڈ کا ٹولہ ہے ان دونوں پارٹیوں میں کیا کسی کو یہ بھی خبر ہے کہ عوام ان دونوں پارٹیوں یعنی حکومت اور اپوزیشن کی بیان بازی سے بالکل بے خبر ہیں انہیں تو مہنگائی کی کھانے پینے کی گزر بسر کی فکر ہے کہ اسے کیسے پورا کرنا ہے عوام کو کوئی فرق نہیں پڑتا کہ پی ڈی ایم حکومت کو لے ڈوبے یا حکومت پی ڈی ایم ٹیم کو لے ڈوبے روز روز کی بیان بازی حکومت آئی حکومت گئی کی ہے صرف یہ ہی خبریں ہیں جو کہ عوام کے لیے رہ گئی ہیں۔
کیا ہمارا کسی اچھی خبر پر کوئی حق نہیں کیا ہم نہیں چاہتے کہ فلاحی کاموں کی طرف توجہ دی جائے ہمارے لیے اچھے عوام دوست پیکجز متعارف کروائے جائیں کبھی عمران خان کی طرف سے یہ بیان سننے کو ملتا کہ چائنا کی طرز پہ ترقی ہوگی کہاں گئیں وہ ترقیاں کہاں گئی وہ ریاست مدینہ عوام کے سامنے لایا جائے کہ اسلام آباد میں میں دن دہاڑے نوجوان کے قتل ہونے کی اصل وجوہات ہیں کیا لاہور میں دو بہنوں کے قتل کی حقیقت کیا ہے موٹروے زیادتی کیس کا کیا بنا کہاں ہیں اس کے اصل مجرم ہم جا ننا چا ہتے ہیں بہت افسوس ہوتا ہے کہ جب میڈیا ریٹنگ کے چکر میں میں ہر خبر کچھ دن تو اٹھا رکھتا ہے مگر جیسے ہی خبر پرانی ہو جاتی ہے تو میڈیا بالکل بھول جاتا ہے ہے شاید میڈیا پر بھی دباؤ ہوتا ہوگا میڈیا کی بھی مجبوریاں ہوتی ہونگی کیا میڈیا بھی آزادی رائے کا اختیار نہیں رکھتا کیا میڈیا بھی کمزور ہے کبھی مذہب کا اور کبھی لسانی بنیاد پہ کب تک لوگ شہید ہوتے رہیں گے۔
مولانا فضل الرحمن فرماتے ہیں کہ سٹیٹ کہاں ہے مولانا صاحب صاحب پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے تو آپ کو سٹیٹ نظر آتی ہے مگر ہزارہ واقعہ کے بعد آپ کو سٹیٹ کیوں نہیں نظر آ رہی ہم یہ نہیں کہتے کہ حکومت کی وجہ سے دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگ گئی ہیں مگر دشمن کے حملوں سے سٹیٹ الرٹ جاری کرتی رہتی ہے بحیثیت مسلمان اور پاکستانی ہر شخص ہر بندہ افسردہ ہے تکلیف میں ہے سانحہ ہزارہ پہ مگر مولانا صاحب ہر واقعہ پر تنقید ہر چیز کا حل نہیں ہو تی کو ئی بھی پاکستانی پاکستانیوں کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا. اللہ پاکستان کو محفوظ رکھے پاکستان ہے تو ہم سب ہیں عوا م اب حکومت اور پی ڈی ایم کے ڈراموں سے نالاں ہیں چک چک سے تنگ آ چکے ہیں کہ آج حکومت آئی آج حکومت گئی 22 سال کی جدوجہد کے بعد اگر حکومت آ ہی گئی ہے تو پانچ سال کی مدت پوری کرنے دیجیے بعد میں عوام فیصلہ خود کرے گی کہ ووٹ کی طاقت سے کس کو دوبارہ لانا ہے اور کس کو گھر بھیجنا ہے۔
Imran Khan
ہم خود تبدیلی خواہاں میں سے ہیں مگر تبدیلی نظر آے بھی تو بات پھر وہی کہ حلوہ گرم گرم نہیں کھا نا چا ہیے اور اپوزیشن جو کہ پہلے ہی قریب المرگ ہے سے گزارش ہے کہ فائدہ کوئی نہیں حکومت کو چھیڑنے کا اورنہ ہی آپ کے اتحاد میں کوئی ایسی اہم بات ہے کہ وزیر اعظم استعفی دیں. آپ سب اپنے اپنے عدالتی کیسز پر توجہ دیں اور اپنے آپ کو صادق اور امین ثابت کریں باقی پھر عوام جانے اور حکومت دیکھتے ہیں ووٹ کو عزت ملتی ہے یا پھر کرکٹ کو. کرکٹ سے یاد آیا نیوزی لینڈ کا دورہ کرکے کے ہماری کرکٹ ٹیم تاریخی ناکامی کے بعد وطن واپس لوٹنے والی ہوگی اور اس سے قبل قومی کھلاڑیوں نے ایک دوسرے پر الزامات کا طوفان بدتمیزی اٹھا رکھا ہے کھلاڑی جو کہ ہر ملک کا سفیر ہوتا ہے آپس میں اس قسم کی زبان استعمال کریں گے تو باقی لوگوں کا کیا حال ہوگا ایک امید تھی کہ 2021 میں شاید کچھ بہتری آئے اور ہم ثابت قدم متحد قوم کی طرح مضبوطی کے ساتھ نئے سال میں داخل ہو نگے مگر پھر وہی اپوزیشن اور حکومت کے ایک دوسرے کو ساس بہو والے طعنے اور پریس کانفرنس بامقابلہ پریس کانفرنس جاری و ساری ہے عوام چاہتی ہے کہ سکھ کا سانس آئے اور اچھی خبریں سننے کو ملیں دیکھتے ہیں پاکستان کے حالات کب اچھے ہونگے ہم سب پاکستان کی سلامتی کے لیے دعا گو ہیں۔