امریکہ (اصل میڈیا ڈیسک) کئی بین الاقومی رہنما اور بالخصوص امریکہ کے اتحادی ممالک کے سربراہان نے چند روز قبل امریکہ میں کپیٹل ہل پر ہونے والے واقعات کو حیرت اور پریشانی سے دیکھا ہوگا۔
نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینس سٹولٹنبرگ سب سے پہلے رد عمل دینے والوں میں شامل تھے جب انھوں نے ٹوئٹر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’واشنگٹن ڈی سی میں حیران کن مناظر۔ ان جمہوری انتخابات کے نتائج کا احترام کرنا ضروری ہے۔’
یہ کس نے سوچا ہوگا کہ نیٹو اتحاد کے سب سے اعلیٰ افسر کی جانب سے یہ تبصرہ ایک اہم ترین اتحادی ملک کے بارے میں ہوگا۔ عمومی طور پر آپ توقع کرتے ہیں کہ ایسی باتیں سیکریٹری جنرل سٹولٹنبرگ بیلاروس یا وینیزویلا کے بارے میں کہیں گے۔
لیکن یہ واقعہ عیاں کرتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے چار سال کے بعد امریکہ کا دنیا میں کیا مقام ہے اور امریکہ نے اپنی طاقت اور اپنا اثر، دونوں ہی کھو دیا ہے۔
امریکہ نے ہتھیاروں میں کمی کرنے کے معاہدوں سے خود کو علیحدہ کر لیا ہے، ایران کے ساتھ کیے گئے جوہری معاہدے کو چھوڑ دیا ہے اور ماحولیات کے حوالے سے کیے گئے اہم معاہدے سے بھی باہر نکل گیا ہے۔
امریکہ نے بیرون ملک اپنی عسکری قوت کو کم کرنے پر توجہ دی ہے لیکن کوئی سفارتی متبادل بھی نہیں دیا ہے۔
اسرائیل، سعودی عرب اور ترکی جیسے ممالک نے اپنی سکیورٹی کے لیے امریکہ پر انحصار کرنا کم کر دیا ہے، اس بات کو جانتے ہوئے کہ امریکی صدر زیادہ دیر تک توجہ دینے کے اہل نہیں ہیں۔
ساتھ ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ آمرانہ طبیعت رکھنے والے رہنماؤں کی زیادہ قدر کرتے ہیں بجائے ان اتحادی ممالک کے جہاں جمہوری اقداروں پر عمل کیا جاتا ہے۔
امریکہ کی وہ خصوصیات جس نے اسے دنیا بھر میں جمہوریت کی مثال بنایا تھا، ماند پڑ گئی ہیں اور ملک میں پیدا ہونے والا شگاف سب سے سامنے عیاں ہے۔
تجزیہ کارائین بریمر کہتے ہیں: ’دنیا کے تمام ترقی یافتہ جمہوری ممالک میں امریکہ سے زیادہ سیاسی طور پر غیر فعال اور منقسم ملک ہے۔‘
اور یہ حقیقت بہت معنی رکھتی ہے کیونکہ حالیہ برسوں میں عالمی نظام کو صدر ٹرمپ کی ’سب سے پہلے امریکہ‘ کی پالیسی سے بہت نقصان پہنچا ہے۔
آمرانہ حکمرانوں کو شہ ملی ہے۔ چین اور روس کو لگتا ہے کہ ان چار سالوں میں دنیا بھر میں ان کا اثر بڑھا ہے۔ لبرل نظام کے ادارے جیسے اقوام متحدہ، نیٹو وغیرہ کو کئی بحران کا سامنا ہے۔
سائبر حملے اور ’گرے زون آپریشنز‘ یعنی بھرپور جنگ چھیڑنے سے پہلے کا مرحلہ اب معمول کی بات بنتا جا رہا ہے۔
دنیا ایک وبا کے شدید بحران سے گزر رہی ہے اور ساتھ ساتھ ماحولیاتی تبدیلی کا چیلینج بھی سر پر ہے، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت میں امریکہ نے اپنی ذمہ داریوں سے قطع تعلق کر لیا تھا۔
یہاں پر ایک بات واضح کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ مضمون قطعی طور پر اس بات کی اپیل نہیں کر رہا کہ امریکہ دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم کرے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ امریکہ کی اپنی اجارہ داری کو وسیع کرنے کی کئی پالیسیاں مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ انھیں بگاڑتی ہیں۔
لیکن امریکہ کی دفاعی اور سکیورٹی پالیسی اس وقت کافی بری حالت میں ہیں۔ ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے والی پالیسیاں جو سرد جنگ کے بعد سے چلی آ رہی تھیں، اب بکھر رہی ہیں۔
امریکہ اور روس کے مابین جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے قائم معاہدے ’نیو سٹارٹ ٹریٹی‘ کو برقرار رکھنے کی آخری کوشش آنے والے امریکی صدر جو بائیڈن کے ایجنڈا کے اولین نکات میں سے ایک ہوگا۔
ہتھیاروں کے پیھیلاؤ یا آرمز کنٹرول مزید اہمیت کا حامل ہوتا جا رہا ہے، بالخصوص ایسے وقت میں جب مزید تباہ کن میزائل جیسے ’ہائپر سونک میزائل‘ تیار کیے جا رہے ہیں، اور پھر خلا میں بڑھتی عکسریت پسندی کو مد نظر رکھنا ہوگا۔
مغربی ممالک کو ایک پر اعتماد چین سے نپٹنا ہوگا اور ساتھ ساتھ ایک جارحانہ مزاج روس کا بھی خیال رکھنا ہوگا۔ ان معاملات میں امریکہ کی موجودگی، چاہے وہ ایک قائدانہ کردار میں ہی کیوں نہ ہو، ان مسائل کے حل لیے بے حد ضروری ہے۔
اور یہ تمام چیزیں نو منتخب امریکی صدر بائیڈن کے لیے بڑی مشکلات کا سبب بن سکتی ہیں۔ امریکہ کے دشمن کپیٹل ہل پر کیے گئے حملے سے بہت خوش ہوں گے۔
نئے آنے والے صدر ایک ایسے موقع پر اپنا حلف اٹھائیں گے جب چین کی معیشت وبا پر قابو پانے کے بعد پھر سے آگے بڑھ رہی ہے جبکہ امریکہ اس سلسلے میں مکمل طور پر ناکام نظر آ رہا ہے، جہاں دنیا میں سب سے زیادہ اموات ہوئی ہیں اور ویکسین کے پھیلاؤ کا عمل بھی اتنا مؤثر نہیں ہے۔
اور بلاشبہ صدارتی انتخاب میں شکست کے بعد صدر ٹرمپ نے کورونا وائرس کی وبا کو قطعی طور پر نظر انداز کیا ہوا ہے۔
تو یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ کو یقین ہے کہ اس وبا کے بحران سے نکلنے کا مطلب ہے کہ چینی نظام بہتر ہے۔
دوسری جانب روس ہے جو کہ امریکہ کا بظاہر مقابل تو نہیں لیکن ان کے لیے ایک پریشان کن عنصر ضرور ہے۔ روس کی جانب سے گمراہ کن خبروں کا پھیلاؤ اور ہیکنگ آپریشنز امریکہ کو متاثر کرنے کے نئے لیکن بہت مؤثر طریقے ہیں۔
جو بائیڈن ایک ایسے وقت میں قیادت سنبھالیں گے جب امریکی انتظامیہ کے کئی ادارے وہ کمپیوٹرز استعمال کر رہے ہیں جن تک روسی ہیکرز کی رسائی ہو گئی ہے۔ ابھی تک کسی کو نہیں معلوم کہ روسی ہیکنگ کتنی گہری ہے اور کتنی دیر تک کے لیے قائم رہے گی۔
حتیٰ کہ امریکہ کے دوست ممالک کے ساتھ بھی نئی امریکی انتظامیہ کے ساتھ روابط آسان نہیں ہوں گے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ نئے امریکی صدر کو اتحادی ممالک کے رہنماؤں کی جانب سے گرمجوشی سے خوش آمدید کیا جائے گا، بالخصوص یورپی یونین اور جی سیون ممالک میں۔
لیکن دوسری جانب اسرائیل، سعودی عرب اور ترکی ہیں جو اپنی پالیسیوں کو نئی امریکی انتظامیہ کے حوالے سے موافق کر رہے ہیں تاکہ جو بائیڈن کی ٹیم سے ان کے تعلقات قائم ہوں۔
لیکن جو بائیڈن کی صدارت میں نئی امریکی انتظامیہ کے لیے ہنی مون زیادہ عرصے تک نہیں چلے گا۔
نیٹو اتحادیوں کے ساتھ تو شاید مسائل جلد حل ہو جائیں۔ لیکن جو بائیڈن اپنے یورپی ہم منصبوں پر بھی ویسے ہی دباؤ ڈالیں گے جو صدر ٹرمپ نے کیا تھا۔ ان کے بھی وہی مطالبات ہوں گی کہ دفاعی اخراجات میں اضافہ کیا جائے اور چین، روس اور ایران کے خلاف سخت پالیسیاں اختیار کی جائیں۔
لیکن یہ نئے پالیسی اتحاد قائم کرنا اتنا آسان نہیں ہوگا جتنا شاید پہلی نظر میں لگے۔
مثال کے طور پر یورپی یونین اور چین کے درمیان ہونے والا سرمایہ کاری کا حالیہ معاہدہ ہے جس کے بارے میں جو بائیڈن کی انتظامیہ کی خواہش تھی کہ اس پر دستخط اتنی جلدی نہ ہوتے۔
اُن کا کہنا ہے کہ چین کے ساتھ کیا ایسا تجارتی معاہدہ کرنا ایک درست قدم ہے جب چین ہانگ کانگ میں جمہوریت کو سلب کر رہا ہے، اویغوروں کے ساتھ ظلم کر رہا ہے اور آسٹریلیا کے خلاف معاشی بلیک میلنگ کر رہا ہے؟
تو یہ کوئی بہت اچھی شروعات نہیں ہے۔
مختلف پالیسیاں، تجارتی تعلقات اور یورپ کی اپنی خود مختاری کی خواہش امریکہ کے ساتھ تعلقات کو مشکل بنا سکتی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ بھی ایک ایسا عنصر ہے جو ان تعلقات کو مزید سرد بنا سکتا ہے۔
یہ یقیناً ایک خوش آئند بات ہے کہ بائیڈن انتظامیہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا اپنی خارجہ پالیسی کا اہم جُزو سمجھا ہے لیکن کئی اتحادیوں کو نہیں لگتا کہ ’ٹرمپ ازم‘ ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیا ہے۔
یہ بات صرف کپیٹل ہل پر حملہ کرنے کی وجہ سے نہیں ہے۔ بلکہ ان اتحادیوں کو لگتا ہے کہ جو بائیڈن شاید صرف ایک بار ہی صدر رہ سکیں اور چار سال بعد ’ٹرمپ ازم‘ کی نئی شکل دوبارہ طاقت میں آ جائے۔
یہ ایک ایسا مرحلہ ہے جہاں پر امریکہ کی خارجہ پالیسی کا بہت زیادہ دار و مدار امریکہ کی داخلی پالیسی پر ہے۔ بلکہ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جو بائیڈن کی ہر پالیسی اب امریکہ کا داخلی معاملہ ہے۔
یہ بات دو اہم نکات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔
امریکی جمہوریت اور امریکی معاشرے کو بہتر کرنا اور اسے انصاف پسند بنانا بیرون ملک ’برانڈ امریکہ‘ کی وُقعت بڑھانے کے لیے نہایت ضروری ہے۔
اگر امریکی اتحادیوں اور اس کے دشمنوں کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ امریکہ نے واقعتاً اپنی راہ تبدیل کر لی ہے تو شاید انھیں امریکی قیادت پر مستقبل کے لیے بھروسہ آ جائے۔
لیکن داخلی پالیسی کے لیے یہ دُہرا کردار نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے۔
اگر جو بائیڈن کو خارجہ امور میں کامیابی حاصل کرنی ہے، تو انھیں سخت ضرورت ہوگی کہ وہ اپنے تقسیم شدہ ملک میں اپنی خارجہ پالیسی کے لیے حمایت حاصل کر سکیں۔
اب جیسے چین کی مثال لے لیں۔ جو بائیڈن کی خواہش ہے کہ وہ چین سے مقابلہ بھی کریں، لیکن جہاں تک ممکن ہو، چین کے ساتھ تعاون بھی کریں۔
اس سلسلے میں سٹریٹیجک پالیسی جیسے جنگی جہاز اور بیرون ملک دفاعی اڈوں کے بجائے تجارتی پالیسی شاید زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔
اورچین کے ساتھ ایک کامیاب تجارتی پالیسی وہی ہو سکتی ہے جسے امریکی اپنے لیے کامیاب اور فائدہ مند سمجھیں گے، جس سے ملک میں روزگار میں اضافہ ہوگا اور بین الاقوامی تجارت میں امریکہ کا حصہ بڑھے گا۔
تو گویا خارجہ پالیسی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کے لیے داخلی طور پر امریکی ریاست کو دوبارہ قائم کرنا اور بہتر کرنا سب سے اہم ہوگا۔
جوناتھن مارکس بی بی سی کے سابق سفارتی اور دفاعی نامہ نگار ہیں۔