کیلیفورنیا: واٹس ایپ کی جانب سے معلومات کے تبادلے کی پالیسی پر دنیا بھر میں بحث جاری ہے تاہم اس سے قبل فیس بک انسانوں کے خیالات پتا لگانے کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے پر کام شروع کرچکا ہے جس کے بارے میں بھی کئی تحفظات پائے جاتے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے بزفیڈ نیوز کے مطابق گزشتہ برس فیس بک کے ملازمین کو جاری کیے گئے آڈیو پیغام مین بتایا گیا کہ کمپنی انسانی خیالات کو پڑھ کر انہیں افعال میں تبدیل کرنے کی ٹیکنالوجی پر کام شروع کرچکی ہے اوراس کے لیے بنائے گئے عصبی حساسیہ (نیورل سینسر) دیگر نیوروٹیکنالوجی کمپنیز کی طرح پراڈکٹ کے طور پر بھی پیش کیے جائیں گے۔
اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے فیس بک عصبی انٹر فیس پر کام کرنے والے ادارے سی ٹی آر ایل لیبز میں کام شروع کردیا ہے۔ فیس بک نے 2019 میں یہ ادارہ خرید لیا تھا۔ بزفیڈ نے فیس بک کے ٹیکنالوجی افسر مائیک شریوفر کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ یہ حساسیے یا سینسرز پہلے ہی دماغ سے ریڑھ کی ہڈی کے ذریعے بازو کی کلائی تک آنے والے عصبی پیغام کا پتا لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
شیروفر کے مطابق اس ٹیکنالوجی کی مدد سے بصری آلات کے ذریعے ٹائپنگ اور گیم وغیرہ کھیلنا بھی ممکن ہوگا اور بڑے پیمانے پر فیس بک کی دماغ پڑھنے کی ٹیکنالوجی کی مدد سے کئی دیگر جسمانی افعال بھی انجام دیے جاسکیں گے۔
اس ٹیکنالوجی کی ابتدائی شکل نیورو لنک برین مشین کی صورت میں سامنے آچکی ہے۔ اس کے ذریعے سوّر میں عصبی چپ نصب کرکے کام یابی کے ساتھ عملی تجرباب کیے جاچکے ہیں۔
اس کے علاوہ فیس بک مصنوعی ذہانت یا آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے ایک اور ٹول ’’ٹی ایل ڈی آر‘‘ پر بھی کام کررہا ہے۔ اس ٹول کی مدد سےتفصیلی خبروں اور مضامین کی نقطہ وار تلخیص ممکن ہوجائے گی اورصارف کو پورا مضمون یا خبر پڑھنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔