آب ِکوثر،رودِ کوثر اور موجِ کوثر، دوسری اسلامی کتب کی طرح سروسز بک کلب آرمی یجوکیشن ڈائریکٹوریٹ ،جی، ایح، کیو، راولپنڈی نے شائع کی ہیں۔ان تین کتب کا اضافہ میری ذاتی لائبریری میں عرصہ تین سال قبل بذریعہ عدیہ، بدست جناب ڈاکٹر پروفیسررشید احمد صدیقی ہوا تھا۔ مطالعہ تو اسی وقت کیا تھا مگر تبصرہ کرنے میں تاخیر ہوتی رہی۔ ان کتب کے مصنف جناب شیخ محمد اکرام معروف مورخ اور محقق ہیں۔ تینوں کتب میں شیخ صاحب نے اپنا تعارف نہیں لکھا۔ اس لیے ان کی شخصیت کے بارے تشنگی رہے گی۔ یہ کتب برعظیم کے مسلمانوں کی مذہبی ، علمی اور سیاسی تاریخ سے مزین ہے۔کتاب آب کوثر میں اسلام کی برعظم میں آمد اور فتح سندھ، یعنی محمد بن قاسم تقفی سے لے کر خاندان لودھی تک عہد ہے۔ یہ دور ٧١١ء سے لے کر ١٥٢٦ء تک آٹھ سو سال تک کے عرصے تک پھیلا ہوا ہے۔اس دور میں پہلے محمد بن قاسم تقفی نے کراچی سے ملتان تک کا علاقہ فتح کیا۔ گو کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان کے دور میں اس علاقہ پرمسلمان فوجوں کی طرف سے حملے ہوئے تھے۔مگر مکمل جنگ اور فتح محمد بن قاسم ثقفی نے کی۔ اس علاقے کے عوام ہندو راجوں کے طرزحکومت سے تنگ تھے۔
عام رعایا ہندو مذہب کے رسم و رواج سے بھی پریشان تھے۔ اسلام کی آمد کے بعد اس سیدھے سادھے مذہب ِاسلام، میں لوگوں جوق در جوق شریک ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ محمد بن قا سم ثقفی کونجات دہندہ تصور کیا۔ عرب سے آئے ہوئے محمد بن قاسم ثقفی کے بعداس دور میں افغانستان سے آئے ہوئے سبتگین ،محمودغزنوی ،غوری،خاندان غلاماں، بلبن خلجی ،تغلق تیمور اور لودھی خاندانوں نے برصغیر میں سیاسی کامیابیاں حاصل کر کے برعظیم میں اسلامی سلطنت کو وسعت دی ۔ سبتگین نے راجہ جے پال کو شکست فاش دی تھی۔ اس دور میں بزرگان دین برعظیم کے کفرستان میں دین کی اشاعت کے لیے تشریف لائے۔ جن میں داتا گنج بخش لاہوری، امام حسن لاہوری، خواجہ معین الدین اجمیری، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، بابا فرید گنج بخش، خواجہ نظام الدین اولیا اور شیخ جمال وغیرہ نے عام ہندوعوام میں اسلام کے پر امن ، شانتی اورذات پات سے پاک انسانی برابری کے اصولوں والے دین کی روح پھونک کر کروڑوں ہندوئوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ ایک ایک برزگ کی دینی خدمات کی تفصیل کا یہاں موقعہ نہیں۔
مصنف نے کتاب ردوِ کوثر کتاب میںبرعظیم کے مسلمانوں کی مذہبی ثقافتی، علمی، تاریخ اور ان کے کارناموں پرمفصل تفصیل لکھی ہے۔ گذشتہ آٹھ سو سالہ مسلم حکمرانی کے بعد مغلوں کا دور شروع ہوتا ہے۔
ظہیرالدین بابر نے کابل سے نکل کر ہندوستان کا رخ کیا۔ ابراھیم لودی اقتدار چھین کر مغلیہ سلطنت کی داغ بیل ڈالی۔ اس کتاب میںعہد مغلیہ سے لے کر سرزمین برعظیم پر انگریزوں کے قابض ہونے تک کے واقعات ہیں۔عہد مغلیہ میں بھی علما،مشائخ اور صوفیہ نے جو اسلام کے لیے خدمات پیش کی وہ اس حصہ میں لکھی ہوئی ہیں۔ ان سے جو نتائج برآمد ہوئے ان کی بھی تفصیل ہے۔ مغل دور میں دفاعی قلعے اور باغات تعمیر ہوئے۔ شیر شاہ سوری اور اس کے خاندان کا بھی ذکر ہے۔ شیر شاہ سوری نے قلیل دورِ حکومت میں دفاعی قلعے اور بہترین انتظام کے تحت بنگال سے پشاور تک شاہرہ شیر شاہ سوری تعمیر کرائی۔ مسلمان اور ہندد مسافروں کے لیے علیحدہ علیحدہ سرائیں بنائیں۔ پھل دار درخت، پانی کی بولیاں(کنویں) اور ڈاک کا بہترین انتظام قائم کیا۔بعد میں انگریز دور میں یہ سڑک گرانڈ ٹرنک روڈ مشہور ہوئی۔ مصنف نے انگریزوں کے برعظیم پر قبضہ کا ذکرہے۔مسلمانوں کے مختلف مکتبہ فکر کے سلسلے جن میں روشنیہ، قادریہ ، چشتیہ، صابری کی دین کے لیے خدمات کا ذکر کیا ہے۔ اس دور میں جب مغل حکمران ہنددئوں کے دین کے طرف زیادہ مائل ہونے لگے تو حضرت مجدد الف ثانی، شیخ عبدلحق محدث دہلوی اور افغان مشائخ نے روک لگائی۔ باشاہوں کو دین اسلام پر چلنے کے لیے مائل کیا۔
تیسری کتاب موج کوثر میں مسلمانوں کی مذہبی اورعلمی تاریخ کادور ِجدید اُنیسویں صدی کے آغاز سے زمانہ حال تک، یعنی قیام پاکستان تک کا ذکر ہے سیاسی لحاظ سے ١٨٠٠ء تا ١٩٤٧ء کا یہ زمانہ محکومت کا دور تھا۔ اس دور میں حضرت سید احمد شہید بریلوی اور ان کے رفقاء مولانا ااسمٰعیل شہید کا ذکر ہے۔ سرسید احمد اور ان کی برپاہ کردہ علی گڑھ تحریک، مولانا الطاف حسین حالی، اکبر الہ آبادی، شبلی،مولانا آزاد، دیو بند، ندوة العلماء اور اقبال کے کارنامے بیان کیے ہیں۔ نہ جانے کس وجہ سے وہ تبلیغی جماعت کا ذکر نہیں کر سکے۔ اسی طرح مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ، اس کی قائم کردہ جماعت اسلامی اور اس کی خدمات جو دنیا تک پھیل چکی ہے کا بھی ذکر نہیں کیا۔
ایک بات جو اس کتابی سلسلے میں کھٹکتی ہے وہ یہ کہ مسلمان علما ، مشائخ اور صوفیوں کی دین کی خدمات کے بیان کرتے ہوئے ایک غیر مسلم اور جھوٹی نبوت کادعویٰ کرنے والے مرزا غلام احمد قادیانی کاذب کو اس کتاب میں شامل کیا، جونہیں کرنا چاہیے تھا۔ ان کو مسلمانوں کا ایک فرقہ بھی نہیں لکھنا چاہیے۔ وہ سادہ لوح مسلمانوں کو یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی دوسرے فرقوں کی طرح اسلام کا ایک فرقہ ہیں۔اس طرح جھوٹ بول کر سادھا لوح مسلمانوں کو غیر مسلم یعنی قادیانی بناتے ہیں۔
تاریخی طور پر ثابت ہے کہ مرزا قادیانی کو انگریز نے اُٹھایا تھا۔ اس کو اسلام سے جہاد کے فریضے کو ختم کرنے کے کام پر لگایا۔ اس کا ثبوت مرزا کی کتاب کے ایک خط سے ملتا ہے۔ اس نے ملکہ برطانیہ کولکھا، کہ میں نے مسلمانوں میں سے جہاد ممنوع قرار دے دیا ہے۔جہاد مخالف کتابوں سے برعظیم کی لائبریریوں کو بھر دیا ہے۔ ایک اور بات کہ مرزائی قادیان سے تعلق کی وجہ سے قادیانی ہیں۔ مصنف نے ان کو بار باراحمدی لکھا ہے۔ وہ احمدی نہیں ہیں ۔ سارے مسلمان ان کو قادیانی ہی لکھتے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریزوںکی ایما پراسلام میں نقب لگا کر نبوت کا اعلان کیا۔
صاحبو!شیخ محمد اکرام صاحب نے کوثر سلسلہ کی یہ تین کتابیں کافی مطالعے ، تحقیق ، جستجواور جان فشانی سے لکھیں ہیں۔ اس میں برعظیم میں مسلمانوں کے ہزار سالہ دور حکومت کے سیاسی ،علمی اور دینی معاملات کا خوش اسلوبی سے ذکر کیا ہے۔یہ کتا بیں ہماری لائبریریوں کی زنیت بننی چاہیے ہیں۔ ہمیں ان کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے۔
آب کوثر، رود کوثر، موج کوثر
Posted on January 11, 2021 By Majid Khan کالم
Shortlink:
kitab aab e kosar,rwd e kosar,moj e kosarr
تحریر : میر افسر امان
آب ِکوثر،رودِ کوثر اور موجِ کوثر، دوسری اسلامی کتب کی طرح سروسز بک کلب آرمی یجوکیشن ڈائریکٹوریٹ ،جی، ایح، کیو، راولپنڈی نے شائع کی ہیں۔ان تین کتب کا اضافہ میری ذاتی لائبریری میں عرصہ تین سال قبل بذریعہ عدیہ، بدست جناب ڈاکٹر پروفیسررشید احمد صدیقی ہوا تھا۔ مطالعہ تو اسی وقت کیا تھا مگر تبصرہ کرنے میں تاخیر ہوتی رہی۔ ان کتب کے مصنف جناب شیخ محمد اکرام معروف مورخ اور محقق ہیں۔ تینوں کتب میں شیخ صاحب نے اپنا تعارف نہیں لکھا۔ اس لیے ان کی شخصیت کے بارے تشنگی رہے گی۔ یہ کتب برعظیم کے مسلمانوں کی مذہبی ، علمی اور سیاسی تاریخ سے مزین ہے۔کتاب آب کوثر میں اسلام کی برعظم میں آمد اور فتح سندھ، یعنی محمد بن قاسم تقفی سے لے کر خاندان لودھی تک عہد ہے۔ یہ دور ٧١١ء سے لے کر ١٥٢٦ء تک آٹھ سو سال تک کے عرصے تک پھیلا ہوا ہے۔اس دور میں پہلے محمد بن قاسم تقفی نے کراچی سے ملتان تک کا علاقہ فتح کیا۔ گو کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان کے دور میں اس علاقہ پرمسلمان فوجوں کی طرف سے حملے ہوئے تھے۔مگر مکمل جنگ اور فتح محمد بن قاسم ثقفی نے کی۔ اس علاقے کے عوام ہندو راجوں کے طرزحکومت سے تنگ تھے۔
عام رعایا ہندو مذہب کے رسم و رواج سے بھی پریشان تھے۔ اسلام کی آمد کے بعد اس سیدھے سادھے مذہب ِاسلام، میں لوگوں جوق در جوق شریک ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ محمد بن قا سم ثقفی کونجات دہندہ تصور کیا۔ عرب سے آئے ہوئے محمد بن قاسم ثقفی کے بعداس دور میں افغانستان سے آئے ہوئے سبتگین ،محمودغزنوی ،غوری،خاندان غلاماں، بلبن خلجی ،تغلق تیمور اور لودھی خاندانوں نے برصغیر میں سیاسی کامیابیاں حاصل کر کے برعظیم میں اسلامی سلطنت کو وسعت دی ۔ سبتگین نے راجہ جے پال کو شکست فاش دی تھی۔ اس دور میں بزرگان دین برعظیم کے کفرستان میں دین کی اشاعت کے لیے تشریف لائے۔ جن میں داتا گنج بخش لاہوری، امام حسن لاہوری، خواجہ معین الدین اجمیری، خواجہ قطب الدین بختیار کاکی، بابا فرید گنج بخش، خواجہ نظام الدین اولیا اور شیخ جمال وغیرہ نے عام ہندوعوام میں اسلام کے پر امن ، شانتی اورذات پات سے پاک انسانی برابری کے اصولوں والے دین کی روح پھونک کر کروڑوں ہندوئوں کو دائرہ اسلام میں داخل کیا۔ ایک ایک برزگ کی دینی خدمات کی تفصیل کا یہاں موقعہ نہیں۔
مصنف نے کتاب ردوِ کوثر کتاب میںبرعظیم کے مسلمانوں کی مذہبی ثقافتی، علمی، تاریخ اور ان کے کارناموں پرمفصل تفصیل لکھی ہے۔ گذشتہ آٹھ سو سالہ مسلم حکمرانی کے بعد مغلوں کا دور شروع ہوتا ہے۔
ظہیرالدین بابر نے کابل سے نکل کر ہندوستان کا رخ کیا۔ ابراھیم لودی اقتدار چھین کر مغلیہ سلطنت کی داغ بیل ڈالی۔ اس کتاب میںعہد مغلیہ سے لے کر سرزمین برعظیم پر انگریزوں کے قابض ہونے تک کے واقعات ہیں۔عہد مغلیہ میں بھی علما،مشائخ اور صوفیہ نے جو اسلام کے لیے خدمات پیش کی وہ اس حصہ میں لکھی ہوئی ہیں۔ ان سے جو نتائج برآمد ہوئے ان کی بھی تفصیل ہے۔ مغل دور میں دفاعی قلعے اور باغات تعمیر ہوئے۔ شیر شاہ سوری اور اس کے خاندان کا بھی ذکر ہے۔ شیر شاہ سوری نے قلیل دورِ حکومت میں دفاعی قلعے اور بہترین انتظام کے تحت بنگال سے پشاور تک شاہرہ شیر شاہ سوری تعمیر کرائی۔ مسلمان اور ہندد مسافروں کے لیے علیحدہ علیحدہ سرائیں بنائیں۔ پھل دار درخت، پانی کی بولیاں(کنویں) اور ڈاک کا بہترین انتظام قائم کیا۔بعد میں انگریز دور میں یہ سڑک گرانڈ ٹرنک روڈ مشہور ہوئی۔ مصنف نے انگریزوں کے برعظیم پر قبضہ کا ذکرہے۔مسلمانوں کے مختلف مکتبہ فکر کے سلسلے جن میں روشنیہ، قادریہ ، چشتیہ، صابری کی دین کے لیے خدمات کا ذکر کیا ہے۔ اس دور میں جب مغل حکمران ہنددئوں کے دین کے طرف زیادہ مائل ہونے لگے تو حضرت مجدد الف ثانی، شیخ عبدلحق محدث دہلوی اور افغان مشائخ نے روک لگائی۔ باشاہوں کو دین اسلام پر چلنے کے لیے مائل کیا۔
تیسری کتاب موج کوثر میں مسلمانوں کی مذہبی اورعلمی تاریخ کادور ِجدید اُنیسویں صدی کے آغاز سے زمانہ حال تک، یعنی قیام پاکستان تک کا ذکر ہے سیاسی لحاظ سے ١٨٠٠ء تا ١٩٤٧ء کا یہ زمانہ محکومت کا دور تھا۔ اس دور میں حضرت سید احمد شہید بریلوی اور ان کے رفقاء مولانا ااسمٰعیل شہید کا ذکر ہے۔ سرسید احمد اور ان کی برپاہ کردہ علی گڑھ تحریک، مولانا الطاف حسین حالی، اکبر الہ آبادی، شبلی،مولانا آزاد، دیو بند، ندوة العلماء اور اقبال کے کارنامے بیان کیے ہیں۔ نہ جانے کس وجہ سے وہ تبلیغی جماعت کا ذکر نہیں کر سکے۔ اسی طرح مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ، اس کی قائم کردہ جماعت اسلامی اور اس کی خدمات جو دنیا تک پھیل چکی ہے کا بھی ذکر نہیں کیا۔
ایک بات جو اس کتابی سلسلے میں کھٹکتی ہے وہ یہ کہ مسلمان علما ، مشائخ اور صوفیوں کی دین کی خدمات کے بیان کرتے ہوئے ایک غیر مسلم اور جھوٹی نبوت کادعویٰ کرنے والے مرزا غلام احمد قادیانی کاذب کو اس کتاب میں شامل کیا، جونہیں کرنا چاہیے تھا۔ ان کو مسلمانوں کا ایک فرقہ بھی نہیں لکھنا چاہیے۔ وہ سادہ لوح مسلمانوں کو یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی دوسرے فرقوں کی طرح اسلام کا ایک فرقہ ہیں۔اس طرح جھوٹ بول کر سادھا لوح مسلمانوں کو غیر مسلم یعنی قادیانی بناتے ہیں۔
تاریخی طور پر ثابت ہے کہ مرزا قادیانی کو انگریز نے اُٹھایا تھا۔ اس کو اسلام سے جہاد کے فریضے کو ختم کرنے کے کام پر لگایا۔ اس کا ثبوت مرزا کی کتاب کے ایک خط سے ملتا ہے۔ اس نے ملکہ برطانیہ کولکھا، کہ میں نے مسلمانوں میں سے جہاد ممنوع قرار دے دیا ہے۔جہاد مخالف کتابوں سے برعظیم کی لائبریریوں کو بھر دیا ہے۔ ایک اور بات کہ مرزائی قادیان سے تعلق کی وجہ سے قادیانی ہیں۔ مصنف نے ان کو بار باراحمدی لکھا ہے۔ وہ احمدی نہیں ہیں ۔ سارے مسلمان ان کو قادیانی ہی لکھتے ہیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی نے انگریزوںکی ایما پراسلام میں نقب لگا کر نبوت کا اعلان کیا۔
صاحبو!شیخ محمد اکرام صاحب نے کوثر سلسلہ کی یہ تین کتابیں کافی مطالعے ، تحقیق ، جستجواور جان فشانی سے لکھیں ہیں۔ اس میں برعظیم میں مسلمانوں کے ہزار سالہ دور حکومت کے سیاسی ،علمی اور دینی معاملات کا خوش اسلوبی سے ذکر کیا ہے۔یہ کتا بیں ہماری لائبریریوں کی زنیت بننی چاہیے ہیں۔ ہمیں ان کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے۔
Mir Afsar Aman
تحریر : میر افسر امان
by Majid Khan
Nasir Mehmood - Chief Editor at GeoURDU.com