امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا یمن کی حوثی تحریک کو پیر گیارہ جنوری کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دے سکتا ہے۔ یہ پیش رفت ایسے وقت ہورہی ہے جب نو منتخب صدر جو بائیڈن، ٹرمپ انتظامیہ سے 20 جنوری کو اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کی تیاری کر رہے ہیں۔
باخبر ذرائع کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ پیر گیارہ جنوری کو یمن کی حوثی تحریک کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم اعلان کرسکتی ہے تاہم سفارت کاروں اور امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ اس سے امن مذاکرات کو خطرہ لاحق ہوجائے گا اور دنیا کے سب سے بڑے انسانی بحران پر قابو پانے کے کوششیں مزید پیچیدگی کا شکار ہوسکتی ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے حالیہ ہفتوں میں ایران سے متعلق متعدد پابندیوں کا اعلان کیا ہے۔ بائیڈن کے بعض حامیوں اور بیرونی تجزیہ کاروں کا بھی خیال ہے کہ ٹرمپ کے معاونین آنے والی انتظامیہ کے لیے ایران کے ساتھ بات چیت شروع کرنے اور بین الاقوامی جوہری معاہدے میں شمولیت ہونے کے امکانات کو مشکل تر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ نے ان خبروں پر فی الحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
ایک قریبی ذرائع کا کہنا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے یمن میں انسانی ہمدردی کے تحت اشیاء کی سپلائی کی اجازت دینے کے حوالے سے تفصیلات طے کرلی ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ امریکی پابندیوں کے باوجود امدادی تنظیموں کو کام کرنے میں کوئی زیادہ دشواری پیش نہیں آئے گی۔ انہوں نے تاہم اس کی وضاحت کرنے سے انکار کردیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حوثی تحریک کو دہشت گر د گروپ قرار دینے کے معاملے پر ٹرمپ انتظامیہ کے اندر ہفتوں تک بحث و مباحثہ ہوتا رہا ہے اور اس امر پر کافی اختلاف پایا جاتا ہے کہ بلیک لسٹ کرنے کی صورت میں امدادی سامان لے کر جانے والے جہازوں کو یمن جانے کی اجازت دینے کا کیا طریقہ کار ہوگا۔
سعودی عرب کی قیادت والے فوجی اتحاد نے سن 2015 میں یمن میں مداخلت کی تھی۔ اس کے بعد سے ہی وہ حوثی گروپ کے خلاف نبرد آزما حکومتی فورسز کی مدد کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے عہدیدار جنگ کو ختم کرنے کے لیے امن مذاکرات بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کیوں کہ اقتصادی اور کرنسی بحران نیز کووڈ انیس کی وبا کے سبب ملک کی حالت ابتر ہوچکی ہے۔
اقو ام متحدہ نے یمن کی موجودہ صورت حال کو دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران قرار دیا ہے، جہاں 80 فیصد افراد کو مدد کی ضرورت ہے۔ اقوام متحدہ کے عہدیداروں نے متنبہ کیا ہے کہ لاکھوں افراد کو قحط سالی کا سامنا ہے اور انہیں مدد فراہم کرنے کے لیے مزید رقم کی ضرورت ہوگی۔
شمالی یمن پر عملاً حوثی گروپ، جو انصار اللہ کے نام سے بھی مشہور ہے، کا قبضہ ہے اور بین الاقوامی ایجنسیوں کو اپنی امدادی سرگرمیاں انجام دینے کے لیے حوثیوں کے ساتھ مل کر ہی کام کرنا پڑتا ہے۔ صنعاء ہوائی اڈہ اور حدیدہ بندرگاہ پر حوثیوں کا کنٹرول ہے لہذا امدادی کارکنوں کو اپنی سرگرمیاں حوثیوں کے تعاون سے ہی انجام دینی پڑتی ہیں۔
مشرق وسطی میں خدمات انجام دینے والے سابق امریکی سفیر ریان کروکر کا کہنا ہے کہ حوثی گروپ کو بین الاقوامی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے ”ٹرمپ انتظامیہ کے فیصلے سے کسی کو فائدہ نہیں ہوگا۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ جہاں تک بعض حوثیوں کے دہشت گردانہ واقعات میں ملوث ہونے کا سوال ہے تو جس طرح مشرق وسطی کے دیگر گروپ میں ایسے عناصر موجود ہیں حوثی گروپ میں بھی موجود ہوسکتے ہیں۔