دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں کورونا ویکسین کے مبینہ تجربے کے دوران ایک شخص کی موت کے بعد حکومت پر لوگوں کی زندگی سے ’کھلواڑ کرنے‘ کے الزامات عائد کیے جارہے ہیں۔
بھارت میں کووڈ انیس کے لیے ملک میں تیار کی جانے والے ‘کوویکسین‘ نامی ٹیکے کے بھوپال شہر میں لوگوں پر کیے جانے والے تجربے کے دوران ایک شخص کی موت ہوگئی، جس کے بعد متعدد سماجی تنظیموں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر تجربات کو فوراً بند کرانے اور ذمہ دار افراد کو سزا دلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
بھوپال شہر میں ‘کووویکسین‘کے تجربات بیشتر ان لوگوں پر کیے جارہے ہیں جو 1984ء میں بھوپال گیس سانحہ سے متاثر ہوئے تھے۔ ان متاثرین کی بہبود کے لیے سرگرم چار تنظیموں نے وزیر اعظم مودی اورمرکزی وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن کو خط لکھ کرکوویکسین کے تجربات فوراً روک دینے اور ‘قوانین اور ضابطوں کی صریح خلاف ورز ی‘ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔انہوں نے متاثرین کو مالی معاوضہ دینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
’کوویکسین‘ کوحکومتی ادارہ انڈین کاؤنسل آف میڈیکل ریسرچ (آئی سی ایم آر) اور دواساز کمپنی بھارت بایو ٹیک مشترکہ طورپر تیار کررہی ہے۔
بھوپال گیس پیڑت مہیلا اسٹیشنری کرمچاری سنگھ کی صدر رشیدہ بی، بھوپال گیس پیڑت مہیلا پرش سنگھرش مورچہ کے نواب خان، چلڈرن اگینسٹ ڈاو کاربائیڈ کی نوشین خان اور بھوپال گروپ فار انفارمیشن اینڈ ایکشن کی رچنا ڈھینگرا نے مشترکہ طور پر اپنے خط میں، جس کے نقل میڈیا کو فراہم کی گئی ہے، لکھا ”ہم آپ کو زمینی صورت حال سے واقف کراتے ہوئے بتانا چاہتے ہیں کہ ایسے شواہد موجود ہیں، جن کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ بھوپال میں کووڈ ویکسین کے کلینیکل ٹرائل کے دوران مقررہ ضابطوں اور قوانین کی صریح خلاف ورزی کی گئی ہے۔ سماجی اور اقتصادی لحاظ سے انتہائی محروم طبقے کے لوگوں کا نہ صرف استحصال کیا گیا بلکہ ان کی صحت کے ساتھ جو کھلواڑ کیا گیا اس کے تباہ کن اثرات اور مضمرات ہو سکتے ہیں۔”
خط میں مزید کہاگیا،”ان کمزور اور پسماندہ افراد کو گمراہ کیا جارہا ہے اور انہیں تجربات کے لیے جانوروں کی طرح استعمال کیا جارہا ہے۔ ایسے کلینکل تجربات کے لیے رضامندی کے طریقہ کار اور ٹیسٹنگ کے پروٹوکول کی صریح خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ لہذا ان تجربات کو فوراً بند کیا جائے اور پورے معاملے کی آزادانہ انکوائری کرائی جائے۔”
رشیدہ بی کا کہنا تھا کہ بھوپال میں سترہ سو افراد پر ویکسین کا تجربہ کیا جارہا ہے اور ان میں کم از کم سات سو بھوپال یونین کاربائیڈ گیس سانحہ کے متاثرین ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ گیس سے متاثرہ ایک شخص کی تجرباتی ویکسین لگانے کے دس دنوں کے اندر موت ہو گئی جب کہ بہت سے دیگر افراد صحت کے حوالے سے سنگین نوعیت کی پریشانیوں سے دوچار ہوگئے ہیں۔
’کوویکسین‘ کے کلینیکل ٹرائل میں حصہ لینے والے بیشتر لوگو ں نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں ٹیکہ لگوانے کے بدلے میں 750روپے دیے گئے تھے جو ان لوگوں کے لیے ایک بڑی رقم ہے۔انہیں گھر سے ہسپتال لانے کے لیے گاڑی بھی بھجوائی گئی تھی۔ ٹیکہ لگانے سے پہلے انہیں بتایا گیا تھا کہ اس سے انہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ وہ کورونا سے محفوظ رہیں گے۔ ان سے ایک کاغذ پر دستخط کروائے گئے تھے لیکن اس کاغذ (رضامندی نامے) کی نقل نہیں دی گئی۔ حالانکہ اس طرح کے تجربات میں یہ لازمی ہے۔
بعض لوگوں کا کہنا تھا کہ انہیں ٹیکہ لگانے کے بعد کہا گیا تھا کہ ہسپتال کا عملہ ان سے رابطہ رکھے گا لیکن ہسپتال سے کبھی کوئی فون نہیں آیا۔ ریکھا نامی ایک خاتون کا کہنا تھا کہ اسے ایک نوٹ بک دیا گیا اور اس میں روزانہ کی کیفیت درج کرنے کے لیے کہا گیا، ”لیکن میں نہ تو پڑھنا جانتی ہوں اور نہ لکھنا میں فارم کو بھلا کیسے پر کرسکتی ہوں۔”
بھوپال میں ‘کوویکسین‘ کا تجربہ کرنے والے مقامی پرائیوٹ ہسپتال پیپلز میڈیکل کالج کے عہدیداران نے گو تسلیم کیا کہ 42سالہ شخص نے’کوویکسین‘ ٹیسٹ میں حصہ لیا تھا لیکن کہا کہ اس کی موت حرکت قلب بند ہوجانے کی وجہ سے ہوئی۔ دوسری طرف بھارت بایو ٹیک نے ویکسین سے موت کی تردید کی ہے۔
بھارت کے ڈرگ کنٹرولر جنرل کی جانب سے گزشتہ ہفتے ‘مفاد عامہ‘ میں کووڈ انیس کے خلاف دو ویکسین کی اجازت دیے جانے کے فیصلے پر متعدد طبی ماہرین نے سخت اعتراض کیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آکسفورڈ۔آسٹرازینیکا نے اپنی’کووی شیلڈ‘ ویکسین کے تیسرے مرحلے کے تجربات کے ڈیٹا عام نہیں کیے ہیں، جب کہ بھارت بایو ٹیک تو ابھی ٹرائل کے لیے رضاکاروں کا اندراج ہی مکمل نہیں کر پایا ہے۔اس دوران حکومت نے 16جنوری سے ویکسینیشن شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔