جدید جمہورتوں میں عوام، مملکت ،پارلیمنٹ، عدلیہ اور صحافت لازمی جز قرار دیے گئے ہیں۔ بادشاہت وں کے خاتمے سے عوام کو رائج کرنے کا موقعہ ملا۔عوام نے خطہ زمین، زبان، ثقافت، تمدن اور تہذ یبی مشترکات پر مملکتیں بنائیں۔ عوام کی آزادانہ رائے سے حکومت یعنی پارلیمنٹ منتخب کرنا، منتخب پارلیمنٹ حکومت کا قانون سازی کرنا، عدلیہ کا ملکی آئین کے مطابق حکومتوں کوچلنے میں مدد کرنا یعنی آئین کی تشریع کرنا،صحافت حکومتوں کے عوام مخالف کاموں سے عوام کو آگاہ کرنا، تاکہ عوام ناپسندیدہ حکومت کو ختم کر کے دوسری اپنی مرضی کی حکومت منتخب کر لیں۔مگر ان سارے معاملات کو ایک طرف رکھ کر ڈونلڈ ٹرمپ صاحب اور نواز شریف صاحب نے اقتدار سے چمٹنے رہنے کے شارٹ اختیار کیے۔
امریکا میں ان ہی اصلوں پر عوام نے ڈونلڈ ٹرپ کو امریکی صدر نے منتخب کیا۔ گو کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے قومیت رنگ ، تارکین وطن، پڑوس لوگوں کی امریکا آمد ، امریکی عوام کی خوشحال اور امریکا کو دنیا میں کھویا ہوامقام دلانے کے خوش نمامنشور پر انتخاب جیتا تھا۔ٹرمپ نے سفید فام امریکی آبادی کو کالوں کے مخالف کیا۔ جس سے امریکا میں یکجہتی کو نقصان پہنچا۔ تاکین وطن خاص کر مسلمانوں کے ساتھ ظالمانا رویہ اختیار کیا ۔ اس وجہ سے تارکین وطن ٹرمپ کے مخالف ہو گئے۔ میکسکو سے لوگ روزی روٹی کے لیے لوگ امریکا آتے تھے۔ اس سے سستی لیبر بھی ملتی تھی۔
میکسکو اور امریکا کی سرحد پر دیوار کھڑی کرنے کی پالیسی سے انڈسریل حلقے بھی ٹرمپ کے خلاف ہو گئے۔امریکا کے عوام کو خوشحالی تب ملتی جب انڈسٹری چلتی، پیدا وار ہوتی اور معیشت کے فارمولے کے مطابق ملٹی پلائیر کام کرتا۔بیرونی دنیا میں کھویا ہوا مقام کیا دلاتا الٹا اُبھرتی ہوئی چینی معیشت سے زور آزمائی کر کے اپنا نقصان کیا۔ امریکا میں سارے معاملات چلانے والی مشینری سے مخالفت اپنے سر لے لی۔ذرا ذرا سی بات پر اسٹبلشمنٹ سے لوگوں کو فارغ کرنا شروع کیا۔ معلوم ہوا کہ محب وطن امریکی لیڈر شب نے ٹرمپ کو مسخرہ کہنا شروع کر دیا۔ یہاں تک سنا گیا کی اس سے ایٹمی ہتھیاروں کے بٹن چلانے والے اختیار وں کو بھی واپس لے لیا گیا۔ کہ کہیں مسخرہ پن میں دینا کو تبائی کے دھانے پر نہ پہنچا دے۔
ان حالت میں کیا دنیا کی سپر پاور امریکا کے عوام کو ٹرمپ سے نجات حاصل نہیں کرنی چاہیے تھی؟۔ جی! یقیناً نجات حاصل کرنی چاہیے تھی۔ امریکا عوام نے ٹرمپپ کو الیکشن میں شکست دے کر اپنا جمہوری حق استعمال کر کے حاصل کر لی۔بلکہ امریکا عوام نے بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے امریکا کو مذید خراب ہونے سے بچا لیا۔ امریکا کی یہ خوشگوار ریت رہی ہے کہ الیکشن میں ہارنے والے سیاستدان جیتنے والے کو خوش آمدید کہہ کر پر امن طریقے سے اقتدار حوالے کر دیتے رہے ہیں۔ ٹرمپ نے یہاں بھی مسخرے پن کا ثبوت پیش کیا ۔ بجائے پر امن اقتدار منتقل کرنے کے تشدد کا رراستہ اختیار کیا۔ امریکی آئین اس کی اجازت نہیں دیتا۔
ٹرمپ بحر حال ایک بڑی پارٹی کا لیڈر اورامریکا کا صدر رہ چکا ہے۔ سیاسی پارٹیوں میں لاکھوں جذباتی کارکن ہوتے ہیں۔ اپنے لیڈروں کو پسند بھی کرتے ہیں۔جیسے ٹرمپ جیسے مسخرے کو پسند کرتے تھے۔ ان سارے جذباتی کارکنوں کو جو اسلحہ سے لیس تھے، پورے امریکا سے ٹرکوں، بسوں اور کاروں میں بھر کر کیپٹل ہلز واشگٹن ڈی سی، جہاں اقتدار آئینی طور پرجیتنے والے جوبیڈن کو منتقل ہونا ہے بلا لیا۔ یہ بھپرے کارکن عمارت کے دروازے کھڑکیاں توڑ کر اور رکاوٹیں ہٹاکر اندر داخل ہو گئے۔ توڑ پھوڑ اور حملے کیے۔ امریکا تیسری دنیا خاص کر مسلمان ملکوں میں قومیت، لسانیت اور انسانی حقوق کی آڑ میں ہنگامے کراتا رہاتھا۔ اپنی زر خرید این جی اوئز کے ذریعے لا اینڈ آڈر کے مسائل کھڑے کرتا رہا۔اب یہ مکافات عمل ہے جس سے امریکا گزر ا ہے۔ ابھی آگے آگے دیکھییے ہوتا ہے کیا؟ بحر حال سیکورٹی والوں نے ان بلوائیوں کو روکا۔ چار قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، کئی لوگ زخمی ہوئے۔
ٹرمپ کی بدمعاشی کے باوجود بھی جوبیڈن کو ووٹ مل گئے۔ میئر نے اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے کرفیو لگا دیا ۔ یہ کرفیو ا مکمل قتدار منتقل ہونے تک جاری رہے گا۔ پھر زودپشیمان ہونے والا ٹرمپ پشیمان ہوا۔ تقریرکر کے ہجوم کو پر امن رہنے کی تلقین کرتے نظر آیا۔ مگر ایک جمہوری ملک امریکا میں ٹرمپ نے غیر جمہوری طرز عمل اختیار کر کے تاریخ میں سیاہ دن کا اضافہ کیا جو برسوں یاد رہے گا۔
یہ غیر جموری طریقہ پاکستان میں تین دفعہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف نے بھی اختیا رکیا۔ جب آف شور کمپنیوں کے کیس میں صادق و امین نہ ہونے پر ملک کے آئین کی شق ٦٢۔٦٣کے تحت اعلی عدالت سپریم کورٹ نے کے لارجر بینج نے سیاست سے تاحیات نا اہل قرار دیا ۔نواز شریف نے ملک کو سر پر اُٹھا لیا۔ پاکستان کے شہروں میں عدلیہ اور ملک کی حفا ظت کرنے والی فوج کے عوام کو اُکسایا۔ ٢٠١٨ء کے الیکشن میں عمران خان کو پاکستانی عوام نے اس کے منشور کہ نمبر ١:۔ پاکستان کا خواب دیکھنے والے علامہ شیخ محمد اقبال کے خواب میں رنگ بھرنے نمبر٢:۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کے اسلامی اور دو قومی وژن پر پاکستان میں مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست بنا نے نمبر ٣:۔پاکستان سے کرپشن کے ب ناسور کو ختم کرنا۔ پاکستان کے عوام نے ٢٠١٨ء کے الیکشن میں ڈیڑھ کروڑ ووٹوں سے منتخب کیا۔
نواز شریف نے پاک فوج کے چیف ، آئی ایس آئی کے چیف اور سی پیک کے چیف کے نام لے لے کر فوج کو بدنام کیا۔ پھر مولانا فضل الرحمان، پیپلزپارٹی اور فوج مخالف قوم پرستوں کو ملا کر پی ڈی ایم (پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ) بنا کر پورے ملک میں پر تشدد جلسے اور تقاریر کر کے بھارت کے پاک فوج مخالف بیانیہ میں رنگ بھرنے کی بھونڈی کوششیں کیں۔ ان کو دہشت گرد الطاف حسین کے انجام کا شاید انجام بھول گیا ہے۔کیا فوج پر دبائے ڈال کر ایک منتخب حکومت کو ختم کرنا جمہوری اور آئینی عمل ہے؟ نواز شریف کہتے ہیں کہ عمران کو فوج لائی۔ اگر یہ مفروضہ مان بھی لیا جائے ،تو کیا نواز شریف کو جنرل جیلانی اور ضیا ء لحق نہیں لایا۔ بھٹو کو ایوب خان نہیں لایا۔ بھٹو ایوب خان کو ڈیڈی کہا کرتا تھا۔ فضل الرحمان نے جنرل مشرف سے ساز باز کر کے ایم ایم اے( متحدہ مجلس عمل) کے ساتھ دھوکا بازی کر کے اُس وقت کی صوبہ سرحد کی اسمبلی نہ توڑ کر مشرف کا ساتھ نہیں دیا۔ پھر تو حمام میں سب ننگے ہیں والی بات ہے۔
صاحبو! چاہے امریکا کے سابق صدر ڈولڈ ٹرمپ صاحب ہوں یا پاکستان کے تین دفعہ وزیر اعظم بننے والے محمد نواز شریف صاحب ہوں، جو کوئی بھی دنیا میں مروجہ جمہوری اور آئینی طریقوں کو چھوڑ کر اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے شارٹ کٹ اختیار کرے گا، ایسے ہی انجام سے دوچار ہوگا۔ کیونکہ کہ مکافات عمل اپنا کام جاری رکھتا ہے ۔دنیا نے سپر پاور امریکا کے ڈونلڈٹرپ اور تیسری دنیا کے ایک غریب ملک پاکستان کے نواز شریف میں مماثلت دیکھی۔ یہ بھی مکافات عمل ہے۔