امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی افواج کے سربراہان نے ایک مشترکہ بیان میں تمام باوردی فوجیوں کو امریکی آئین اور اپنے حلف کی پاسداری کی تلقین کی ہے۔
منگل کو جاری کیے جانے والے ایک غیرمعمولی بیان میں ملٹری قیادت نے فوجیوں پر واضح کیا کہ انتقال اقتدار کے آئینی مراحل میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوششیں ”نہ صرف ہماری روایات، اصولوں اور حلف کے برخلاف ہیں بلکہ یہ قانون کی بھی خلاف ورزی ہوگی۔‘‘
یہ بیان امریکی فوج کے سربراہ مارک مِلی اور جوئنٹ چیفس آف اسٹاف کے دستخط سے جاری کیا گیا۔ بیان میں چھ جنوری کو امریکی کانگریس کی عمارت کیپیٹل ہِل پر پیش آنے والے پرتشدد واقعات کو ‘قانون کی حکمرانی کے برخلاف‘ قرار دیا گیا۔
واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کے مسلح حمایتیوں کی جانب سے کی جانے والی اس ہنگامہ آرائی میں پانچ لوگ مارے گئے تھے۔ اس واقعے میں بعض ریٹائرڈ فوجی بھی شامل تھے، جن میں ایک شخص پولیس کے ہاتھوں مارا گیا۔ تاہم امریکی جنرلوں نے اس بیان میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا۔
اپنے بیان میں فوجی سربراہان نے کہا کہ اظہار آزادی کے حق کا یہ مطلب نہیں کہ لوگ تشدد اور بغاوت پر اتر آئیں۔ انہوں نے فوجیوں پر زور دیا کہ وہ تمام تر توجہ اپنے فرائض کی ادائیگی پر مرکوز رکھیں۔
بیان میں امریکی فوجی قیادت نے واضح انداز میں نو منتخب صدر جو بائیڈن کی انتخابی فتح کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ”بیس جنوری کو آئین کے مطابق نو منتخب صدر بائیڈن اپنا حلف اٹھائیں گے اور ہمارے چھیالیسویں کمانڈر ان چیف بن جائیں گے۔‘‘
امریکا میں نئے صدر کی حلف برداری کے موقع پر مزید ہنگاموں کا خدشہ ہے۔ حکام اس بار سکیورٹی سروسز اور نیشنل گارڈ کے ساتھ مل کر سکیورٹی کے غیرمعمولی انتظامات کر رہے ہیں۔
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
ان انتظامات میں امریکی فوج کا براہ راست کردار نہیں ہوتا۔ تاہم فوج خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر ان تمام جوانوں کا بغور جائزہ لے رہی ہے جنہیں حلف برداری والے دن نئے صدر کی سکیورٹی پر معمور کیا جائے گا۔
اسی دوران نائب صدر مائیک پینس نے اپوزیشن کا پچیسویں آئینی ترمیم کے تحت صدر ٹرمپ کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ مسترد کردیا ہے، جس کے بعد امریکی ایوان نمائندگان میں صدر ٹرمپ کے مواخذے کی کوششیں زور پکڑ چکی ہیں۔
امریکی ایوان نمائندگان میں ڈیموکریٹک پارٹی کی اکثریت ہے۔ صدر ٹرمپ کے مواخذے کی تحریک پر رائے شماری بدھ کی دوپہر تک متوقع ہے۔ اگر یہ تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ وہ پہلے امریکی صدر ہوں گے جنہیں دو بار مواخذے کا سامنا کرنا پڑا۔