واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) دو روز قبل امریکی وزیر خارجہ نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں ایران کی جانب سے شدت پسند تنظیم ‘القاعدہ’ کی ریاستی سطح پر مدد ، سرپرستی اور عسکری تربیت کی تفصیلات بیان کیں۔ دوسری طرف ایرانی لیڈروں کی طرف سے ڈھٹائی کے ساتھ القاعدہ کی معاونت کا اعتراف بھی سامنے آیا ہے۔
مائیک پومپیو نے واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس میں انکشاف کیا کہ ایران نے القاعدہ جنگجوئوں، تنظیم کے چوٹی کے لیڈروں اور اسامہ بن لادن کے اہل خانہ کو پناہ دینے کے حوالے سے انٹیلی جنس معلومات جار کیں۔
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی کہ امریکی وزیر خارجہ نے 11 ستمبر کو ہونے والے حملے ، جنگجوؤں کو پناہ دینے اور ایران کو ایک نئے افغانستان میں تبدیل کرنے میں القاعدہ کو ایرانی حکومت کی مدد کے بارے میں کیا کہا تھا۔
تقریبا ایک سال قبل ایرانی پاسداران انقلاب کے رہ نما میجر جنرل سعید قاسمی نے کئی سال قبل ایرانی حکومت کے القاعدہ کے ساتھ تعاون اور اس کے کارندوں کو تربیت دینے کا اعتراف کیا تھا۔
پاسداران انقلاب کے عہدیدار حسین اللہ کرم نے اس اعتراف کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا کہ القاعدہ کی مختلف سطحیں ہیں۔ بوسنیا اور ہرزیگووینا فورسز کی ایک شاخ القاعدہ کا حصہ ہے۔ اس کا ایک یا دوسرا راستہ ہم سے منسلک تھا۔ اگرچہ وہ القاعدہ کی بنیاد پر تربیت حاصل کر رہے تھے لیکن جب انھیں اسلحہ مل گیا تو وہ ہمارے ساتھ شامل ہوجائیں گے۔ القاعدہ کے ساتھ ہمارے تعلقات مختلف سطح اور نوعیت کے رہےہیں۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا جب پاسداران انقلاب یا ایرانی کمانڈروں نے تہران کے القاعدہ کے ساتھ تعاون کا اعتراف کیا تھا چاہے ان جنگجوئوں کا تعلق افغانستان سے ہو یا بوسنیا سے۔
ایرانی جوڈیشل اتھارٹی کے معاون محمد جواد لاریجانی نے 30 مئی 2018 کو ایرانی ٹی وی کو خصوصی انٹرویو کے دوران غیر معمولی بیان میں اعتراف کیا کہ ایران نے 11 ستمبر 2001 کو نیویارک میں حملے کرنے والے القاعدہ کے سرگرم کارکنوں کو گزرنے میں مدد فراہم کی تھی۔
انہوں نے ایران القاعدہ تعلقات کی تفصیلات بیان کیں اور یہ بھی بتایا کہ ایرانی انٹلیجنس نے ایران میں القاعدہ جنگجوئوں کو گزرنے میں مدد کی تھی۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ لی ہیلٹن جیسی امریکی شخصیات کی سربراہی میں نائن الیون کمیشن کی لمبی رپورٹ میں اس معاملے میں ایران کے کردار کے بارے میں جرح کی گئی ہے۔ خاص طور پر چونکہ ایک گروپ نے بتایا ہے کہ القاعدہ کے کارکن جو افغانستان یا کسی اور جگہ جانا چاہتے تھے نے ایرانی حکام سے کہا کہ کہ ان کے پاسپورٹ پر ڈاک ٹکٹ نہیں ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہماری حکومت نے ان میں سے کچھ کے پاسپورٹ پر مہر نہ لگانے پر اتفاق کیا کیونکہ انہوں نے” ٹرانزٹ “پروازوں کی شکل میں دو گھنٹے تک سفر کیا تھا اور اپنے پاسپورٹ پر مہر ثبت کیے بغیر اپنا سفر جاری رکھا لیکن ان کی تمام نقل و حرکت ایرانی انٹیلی جنس کی مکمل نگرانی میں تھی۔
لاریجانی نے امریکا پر تنقید کی کیونکہ اس معاملے کو نیویارک میں ہونے والے نائن الیون حملوں میں ایران کے ملوث ہونے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ امریکا کا مقصد اس پر اربوں ڈالر جرمانہ عئاد کرنا۔ امریکیوں کا کہنا ہے کہ ایران نے ایک ایسے طیارے کواپنی فضا سے گذرنے کی اجازت دی جس میں نائن الیون حملوں میں شامل ایک القاعدہ کماننڈر اور ایک حزب اللہ کمانڈر موجود تھے۔
اس کے باوجود لاریجانی جو ایرانی عدلیہ میں نام نہاد انسانی حقوق کمیٹی کے سربراہ ہیں نے ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہوئے بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں پر الٹا الزام تراشی کی۔ انہوںنے اعتراف کیا کہ القاعدہ کے عناصر ایرانی حکومت کی انٹلی جنس وزارت کے ساتھ مستقل رابطے میں تھے اور انہوں نے ایران یا افغانستان کے دوروں کے دوران ایران کی سرزمین استعمال کی تھی۔
امریکی حکام نے سنہ 2011ء کو اسامہ بن لادن کے مبینہ ٹھکانے ٹھکانے سے جو دستاویزات حاصل کیں انہیں”ایبٹ آباد دستاویزات” کا نام دیا جاتا ہے۔ ان دستاویزات کو گذشتہ نومبر میں امریکی سنٹرل انٹلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) نے شائع کیا تھا۔ ان میں بھی القاعدہ اور ایران کے باہمی تعلقات اور تال میل کی تفصیلات سامنے آئی تھیں۔
بن لادن کے ٹھکانے سے حاصل کردہ 470،000 دستاویزات میں سے 19 صفحات ایرانی حکومت کے ساتھ القاعدہ کے قابل ذکر روابط کے لیے وقف ہیں۔
ایک دستاویز سے ظاہر ہوا ہے کہ القاعدہ کے ایک ممتاز رکن نے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ایران خلیجی ملکوں بالخصوص سعودی عرب امریکی مفادات پرحملوں کے بدلےالقاعدہ کو لبنان میں حزب اللہ کی زیرنگرانی عسکری تربیت دینےرقم اور ہتھیار مہیا کرنے کے لیے تیار ہے۔