امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) سوشل نیٹ ورکنگ سروس ٹویٹر نے تشدد برپا کرنے میں صدر ٹرمپ کے کردار کے لیے ان پر پابندی لگانے کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا ہے۔ تاہم اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس اقدام کے ’حقیقی اور اہم مضمرات‘ بھی ہیں۔
ٹویٹر کے چیف ایگزیکٹیو جیک ڈورزی نے بدھ کے روز کہا کہ کیپیٹل ہل میں ہونے والے پرتشدد واقعات کے تناظر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر سوشل میڈیا پر پابندی عائد کرنا درست فیصلہ تھا تاہم اس سے ایک خطرناک نظیر بھی قائم ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا، ”میرے خیال سے ٹویٹر کے لیے یہ بالکل درست فیصلہ تھا۔ ہمیں ایک غیر معمولی اور ناقابل برداشت صورتحال کا سامنا کرنا پڑا، جس نے ہمیں مجبور کیا کہ ہم اپنی تمام تر توجہ عوام کی حفاظت پر مرکوز کریں۔”
اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں انہوں نے مزید کہا، ”ایسے اقدامات سے عوام کی بات چیت بھی انتشار کا شکار ہو جاتی ہے۔ انہوں نے ہمیں تقسیم کر دیا۔وہ وضاحت اور ہمارے سیکھنے کی صلاحیت کو محدود کرتے ہیں۔ عالمی عوام کے ایک حصے کی گفتگو پر ایک فرد یا پھر ایک کمپنی کی اس قدر طاقت کی حیثیت سے، یہ ایک ایسی نظیر پیش کرتا ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ یہ خطرناک ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”اس طاقت پر نظر رکھنا اور جوابدہ رہنا بھی ایک حقیقت ہے، اور ٹویٹر اس مسئلے پر انٹرنیٹ پر ہونے والی وسیع تر عوامی گفتگو کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ اگر لوگ ہمارے قوانین اور اس کے نفاذ سے متفق نہیں ہیں تو وہ آسانی سے کسی دوسری انٹرنیٹ سروس پر جا سکتے ہیں۔”
ٹویٹر، فیس بک اور یو ٹیوب جیسی سوشل میڈیا ویب سائٹوں نے اس خدشے کے پیش نظر کہ صدر ٹرمپ مزید تشدد بھڑکانے کے لیے ان کے پلیٹ فارم کا استعمال کر سکتے ہیں، ان پر پابندی عائد کر دی ہے یا پھر ان کے ذاتی اکاؤنٹ کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے۔
ٹویٹر کے سی ای او جیک ڈورزی کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں سوشل میڈیا نے ایک دوسرے سے رابطے میں رہ کر کوئی مشترکہ کارروائی نہیں کی البتہ دوسروں کے اقدامات سے حوصلہ افزائی ضرور ملی۔
ٹرمپ پر پابندی کیوں لگی؟ ٹرمپ نے امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج کے جواز پر بارہا سوال اٹھایا اور سوشل میڈیا پر خاص طور پر وہ بغیر کسی ثبوت کے بار بار یہ جھوٹا دعوی کرتے رہے کہ ووٹنگ میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے۔ اس سے ان کے حامیوں کے ایک بڑے طبقے نے یہ باور کر لیا کہ انتخابات غیر منصفانہ تھے اور ان کو فتح سے محروم کردیا گیا۔
چھ جنوری کو جب کانگریس میں نو منتخب صدر جو بائیڈن کی جیت کی تصدیق کے لیے ارکان جمع ہوئے تو ٹرمپ کے حامیوں کا ایک برہم گروپ واشنگٹن پہنچا جس سے صدر ٹرمپ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ الیکشن کی چوری کو روکنے کے لیے ”جم کر لڑیں۔” اس کے بعد ہی ان کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر دھاوا بول دیا اور عمارت کے اندر گھس کر خوب توڑ پھوڑ کی۔ تحفظ کے لیے کانگریس کے ارکان کو تہہ خانے میں پناہ لینی پڑی۔
ذاتی اکاؤنٹ پر پابندی کے بعد ابتداء میں ٹرمپ نے اپنے حکومتی ٹویٹر اکاؤنٹ سے ٹویٹ کر کے اس پابندی کو توڑنے کی کوشش کی۔ لیکن چونکہ ٹویٹر اس طرح کی معطلی کے فیصلے پر دوسرے اکاؤنٹ سے بھی ٹویٹ کی اجازت نہیں دیتا اس لیے ان کی تمام ٹویٹس کو ڈیلیٹ کر دیا گیا۔ ٹرمپ نے سوشل میڈیا کے اس فیصلے پر شدید نکتہ چینی کی اور اسے آزادی اظہار پر غیر مثالی حملہ قرار دیا۔
بیشتر ڈیموکریٹ سیاست دانوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا جبکہ بعض نے کہا کہ یہ قدم بہت پہلے اٹھانے کی ضرورت تھی۔ لیکن متعدد ریپبلکنز نے اس پر یہ کہہ کر نکتہ چینی کی یہ صدر ٹرمپ کی آزادی رائے کو دبانے کی باغیانہ کوشش ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی ٹریٹر کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ان کے ترجمان کا کہنا تھا کہ آزادی رائے کے اظہار کا حق بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔