کابل (اصل میڈیا ڈیسک) افغان دارالحکومت کابل میں نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ملکی سپریم کورٹ کی دو خواتین ججوں کو ہلاک کر دیا۔ افغان وزارت داخلہ کے مطابق آج اتوار کی صبح کیے جانے والے اس حملے میں ایک تیسری خاتون جج زخمی بھی ہو گئی۔
کابل میں ملکی سپریم کورٹ کے ترجمان احمد فہیم قاوم نے بتایا کہ ہلاک ہونے والی دونوں خواتین عدالت عظمیٰ کی اہلکار اور قومی عدلیہ کی رکن تھیں۔ دوسری طرف ملکی وزارت داخلہ نے تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس حملے میں دو خواتین جج ہلاک اور ایک تیسری خاتون جج زخمی بھی ہو گئی۔ ان تینوں خواتین کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی۔
سپریم کورٹ کے ترجمان قاوم کے مطابق ان ججوں کو اس وقت نشانہ بنایا گیا جب وہ اپنے دفتر جانے کے لیے کابل شہر کے دسویں ضلع میں سفر میں تھیں۔ اس حملے کی تاحال افغان طالبان یا کسی بھی دوسرے مسلح گروپ نے ذمے داری قبول نہیں کی۔
آج کا حملہ ایک ایسے وقت پر کیا گیا جب ماہرین کو پہلے ہی سے اس بات پر شدید تشویش ہے کہ ہندوکش کی اس ریاست میں گزشتہ کچھ عرصے سے اہم شخصیات کو ہدف بنا کر ہلاک کرنے کی ایک باقاعدہ لہر دیکھنے میں آ رہی ہے۔
افغان سپریم کورٹ کے ترجمان احمد فہیم قاوم کے مطابق، ”ان ججوں پر حملہ اس وقت کیا گیا، جب وہ عدالت عظمیٰ کی ایک گاڑی میں سوار تھیں اور اپنے دفتر جا رہی تھیں۔‘‘
کابل میں کل ہفتے کے روز پولیس کی ایک بکتر بند گاڑی پر بھی بم حملہ کیا گیا تھا، جس میں متعدد پولیس اہلکار مارے گئے تھے
سپریم کورٹ کی خواتین ججوں کی تعداد 200 سے زائد افغانستان کی سپریم کورٹ کے لیے کام کرنے والی خواتین ججوں کی مجموعی تعداد 200 سو سے زائد ہے اور آج کا حملہ ایسی کوئی پہلی خونریز کارروائی نہیں، جس میں عدالت عظمیٰ کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہو۔
کابل میں سپریم کورٹ پر اب تک کا سب سے ہلاکت خیز حملہ فروری 2017ء میں کیا گیا تھا۔ تب تقریباﹰ چار سال قبل ایک خود کش حملہ آور نے خود کو اس عدالت کے اہلکاروں کے ایک ہجوم کے عین درمیان میں دھماکے سے اڑا دیا تھا۔ تب اس حملے میں کم از کم 20 افراد ہلاک اور 41 زخمی ہو گئے تھے۔
افغانستان میں حالیہ مہینوں کے دوران یہ واضح رجحان دیکھنے میں آیا ہے کہ دارالحکومت کابل اور دیگر بڑے شہروں میں دن دیہاڑے کیے جانے والے حملوں میں سرکردہ حکومتی یا سماجی شخصیات کو ٹارگٹ بنا ہلاک کر دیا جاتا ہے۔
دنیا بھر میں دہشت گردی سے متاثر ممالک میں افغانستان اس برس سر فہرست رہا۔ سن 2018 کے دوران افغانستان میں 1443 دہشت گردانہ واقعات ہوئے جن میں 7379 افراد ہلاک اور ساڑھے چھ ہزار افراد زخمی ہوئے۔ 83 فیصد ہلاکتیں طالبان کے کیے گئے حملوں کے سبب ہوئیں۔ طالبان نے پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا۔ داعش خراسان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.60 رہا۔
ان ہلاک شدگان میں سے بہت سے سیاستدان اور صحافی بھی تھے اور سرکردہ سماجی کارکن، ڈاکٹر اور سرکاری وکلائے استغاثہ بھی۔ افغان حکام ان بڑھتے ہوئے حملوں کا الزام طالبان عسکریت پسندوں پر لگاتے ہیں تاہم طالبان اس بات سےا نکاری ہیں کہ وہ دوحہ میں کابل حکومت کے ساتھ جاری اپنی امن بات چیت کے باوجود افغانستان میں اپنے حملوں میں تیزی لا چکے ہیں۔
افغانستان کی قومی انٹیلیجنس کے سربراہ احمد ضیا سراج نے ابھی اسی مہینے ملکی پارلیمان کے ارکان کو بتایا تھا کہ گزشتہ برس طالبان کے حملوں کے حوالے سے خاص طور پر ہلاکت خیز رہا تھا۔
سراج کے مطابق 2020ء میں طالبان نے ملک میں مجموعی طور پر 18 ہزار سے زائد مسلح حملے کیے، جن میں ہزاروں افراد ہلاک یا زخمی ہوئے تھے۔
عشروں پہلے سوویت یونین کے دستوں کے خلاف لڑنے والے کمانڈر جلال الدین حقانی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی تھی۔ افغان جنگ کے دوران اسّی کی دہائی میں اس گروہ کو امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سن 1995 میں اس نیٹ ورک نے طالبان کے ساتھ اتحاد کر لیا تھا۔ 1996ء میں طالبان حقانی نیٹ ورک کی مدد سے ہی کابل پر قبضہ کرنے کے قابل ہوئے تھے۔ سن دو ہزار بارہ میں امریکا نے حقانی نیٹ ورک کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔
جہاں تک امریکی افواج کا تعلق ہے تو واشنگٹن انتظامیہ طالبان کے ساتھ دوحہ میں ہونے والی ڈیل کے بعد ہندوکش کی اس ریاست سے اپنے فوجی واپس بلانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔
جمعہ پندرہ جنوری کے روز امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے کہا تھا کہ افغانستان میں تعنینات امریکی فوجیوں کی تعداد اب مزید کم ہو کر صرف ڈھائی ہزار رہ گئی ہے۔ یہ تعداد گزشتہ تقریباﹰ دو عشروں کے دوران افغانستان میں تعنیات امریکی فوجیوں کی سب سے کم تعداد ہے۔
امریکا اور طالبان کے مابین ہونے والے معاہدے کے تحت امریکی حکومت کو افغانستان سے اپنے تمام فوجی اس سال مئی تک واپس بلانا ہیں۔