در خشندہ روایات

Accountability

Accountability

تحریر : طارق حسین بٹ شان

اس وقت پوری دنیا انتشار کا منظر پیش کر رہی ہے۔ڈولنڈ ٹرمپ کی لن ترانیاں دنیا کو غیر محفوظ بنا رہی ہیں لہذا کسی کو کچھ خبر نہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے؟ایسے میں براڈ شیٹ کے ہاتھوں ٤ ارب کے جرمانے سے پیدا ہونے والی کہانی گھر گھر پہنچ گئی ہے جس نے پاکستانی وقار کو مٹی میں ملا دیا ہے ۔اس ایشو سے حکومت اور اپوزیشن کو ایک ایسا فٹ بال مل گیا ہے جس سے دونوں بڑی فراخدلی سے کھیل رہے ہیں۔ الزامات اور جوابی الزامات کا ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو چکا ہے جس میں عوام حیران و شسدر کھڑے ہیں۔

انھیں سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ ہے؟ ١٠ اکتوبر ١٩٩٩٩ کو جنرل پرویز مشرف نے میاں محمد نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور ملک میں قانون کی حکمرانی،احتساب اور کرپشن کے خاتمہ کا نعرہ بلند کر دیا جسے عوام نے شرفِ قبولیت بخشا ۔اسی سلسلے میں جنرل پرویز مشرف نے عوام کی سوچ کا دھارا کرپشن اور انصاف کی جانب موڑ ا اور اپنے غیر آئینی فعل کو عوامی جذبات کی طلاطم خیزیوں سے جائز بنانے کی کوشش کی ۔ بے انصافی اور ظلم و ستم کی ماری ہوئی قوم نے جنرل پرویز مشرف کے اعلانات کو حقیقی سمجھ کر ان سے امیدیں وابستہ کر لیں ۔عوام دل و جان سے عدل و انصاف کے خواہاں تھے لہذا وہ ان کے جھانسے میں آ گے لیکن انھیں احتساب کے نام پر دھوکہ دیا گیا۔ ٢٠٠٠ میں کچھ سیا ستدانوں لوٹ مار کے خلاف براڈ شیٹ کی خدمات حاصل کی گئیں تا کہ مخالفین کو خائن اور ملک دشمن ثابت کر کے جیلوں میں ٹھونسا جا سکے۔اقتدار کا حصول چونکہ مقصودِ بالذات تھا لہذا احتساب کا چورن بیچا گیا ۔ یہ چورن پہلے پہل تو خوب بکا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا اس چورن کی افادیت کم ہو تی چلی گئی۔،۔

سپریم کورٹ کے فیصلہ کی رو سے تین سالوں کے اندر اند ر انتخابات کا انعقاد آئینی مجبوری تھی لہذا ٢٠٠٢ میں انتخابات کا ڈول ڈالا گیا۔پی پی پی، ایم ایم اے اور مسلم لیگ (ق) ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں بن کرابھریں ۔ ایک وقت میں تو ایسے لگ رہا تھا کہ مولانا فضل الرحمان ملک کے وزیراعظم بن جائیں گے۔لیکن امریکی مخالفت کی وجہ سے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ۔ایک وقت میں مخدوم امین فہیم بھی وزارتِ عظمی کے قوی امیدوار تھے لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو کے انکار کی وجہ سے وہ وزیرِ اعظم بننے سے محروم رہے ۔ انھیں اس بات کا ساری عمر قلق رہا جس کا اظہار انھوں نے ہمارے ساتھ ایک نجی ملاقات میں بھی کیاتھا۔حسنِ اتفاق دیکھئے کہ وہ چند بڑے بڑے لوگ جن کے نام براڈ شیٹ کو تفتیش کے لئے بھجوائے گے تھے ان میں سے اکثر پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہو گے۔ جنرل پرویز مشرف کو اپنا وزیرِ اعظم لانے کی خاطر ان ممبران کا ووٹ درکار تھا اور یہ کیسے ممکن تھا کہ ان کے خلاف عالمی سطح پر تفتیش کا پہیہ گھوم رہا ہواور وہ پھر بھی جنرل پرویز مشرف کی حمائت پر کمر بستہ ہو جائیں۔

لہذا جنرل پرویز مشرف کی ایماء پر سیاستد انوں کے خلاف شروع ہونے والی کاروائی حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہو گئی ۔ جھنیں قانون کے شکنجے میں کسنا مقصود تھا انہی سے سیاسی حمائت کی بھیک مانگنی پڑ گئی ۔چند نام تو ایسے تھے جوجیل کی ہوا کھانے والے تھے لیکن انتخابات میں ان کی فتح نے ساری بازی ہی الٹ دی اور وہ اہم وزارتوں سے نوازے گے۔یہ وہی انتخابات ہیں جن میں پی پی پی کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کیلئے رائو سکند کی سر پرستی میں پی پی پیٹریاٹ گروپ تشکیل دیا گیا۔

آئینی طور پر فلور کراسنگ ممکن نہیں تھی لہذا صدارتی آرڈیننس کے ذریعے فلورکراسنگ کا نیا قانون نافذ کیا گیا جس کی وجہ سے پی پی پی کے اٹھارہ ممبران پیٹریاٹک گروپ کا حصہ بنے اور انھیں اہم وزارتیں تفویض ہوئیں۔اگرعوام دماغ پر زور دیں گے تو انھیں اکثر نام یاد آ جائیں گے۔یہی وہ مقام تھا جب براڈ شیٹ کی تفتیشی کاروائی روک دی گئی اور اس معاہدہ کو منسوخ کر دیا گیا جو بیرونِ ملک جمع کی گئی دولت کو ملک میں واپس لانے کیلئے براڈ شیٹ کے ساتھ کیا گیا تھا۔براڈ شیٹ نے معاہدہ کی منسوخی پر اپنا معاوضہ طلب کیا تو جنرل پروز مشرف کی حکومت نے وہ معاوضہ ادا کرنے سے انکار کر دیا ۔جنرل تو جنرل ہی ہو تا ہے لہذا جنرل پرویز مشرف نے کسی کو در خورِ اعتنا نہ سمجھا ۔براڈ شیٹ نے معاملہ کے تصفیہ کیلئے عدالت کا رخ کیا تو کئی سالوں کے بعد حکومت ِ پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجہ میں اسے چار ارب ادا کرنے کا عدالتی حکم نامہ صادر ہوا ۔،۔

ہمارے ملک کا اندازِ حکمرانی بھی عجیب و غریب ہے ۔جو کوئی بھی آتا ہے اپنی ڈفلی الگ ہی بجانا شروع کردیتا ہے۔پی ٹی آئی بھی عدل و انصاف کے قیام ،کرپشن کے خاتمہ،احتساب اور میرٹ کے اجرائی نعرہ پر بر سرِ اقتدار آئی تھی ۔یہ جماعت ایک کروڑ نوکریوں کی یلغار، بے گھر افراد کیلئے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر ،مہنگائی میں کمی،پولیس میں اصلاحات اور قرضوں سے نجات کے منشور سے عوامی حمائت سمیٹنے میں کامیاب تو ہو گئی لیکن اس کی جو حالت ہے وہ سب کے سامنے ہے۔پورے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہے ، رشوت ستانی کا بازار گرم ہے ،عدل و انصاف کا دور دور تک نام و نشاں نہیں ہے۔عوام کی جان و مال کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔

روزگار کا تحفظ ختم ہو چکا ہے اور کم آمدنی والے افراد کوفاقوں سے مرنے پر مجبورکر دیا گیا ہے ۔اس پر طرہ یہ کہ اپو زیشن کو جینے کے حق سے محروم کر دیاگیا ہے۔ حکومتی وزرا ء جوابدہی کے ہر عمل سے خارج ہیں اور احتساب کا شکنجہ صرف اپوزیشن کے گرد کسا جا رہا ہے۔حکومتی بے رحمی، سفا کیت اور جانبداری کے خلاف اپوزیشن نے پی ڈی ایم تشکیل دے رکھی ہے جو حکومت کے خلاف جلسے جلوسوں اور ریلیوں کا سہارا لے رہی ہے ۔اس نے ٣١ جنوری کے بعد لانگ مارچ اور استعفوں کااعلان کر کھا ہے۔حکومت شدید دبائو میں ہے۔اسے امورِ ریاست چلانے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔پارلیمنٹ غیر فعال ہو چکی ہے جس سے مقتدرہ بھی مخمصہ کا شکار ہے۔اس نے جسے سونا سمجھ کر اقتدار سونپا تھا وہ توکالا پتھر نکلا ۔ ،۔

ملک کی معاشی حالت دن بدن پتلی ہو تی جا رہی ہے۔ملکی ترقی کی رفتار منفی ہوگئی ہے۔مکار دشمن سر پر کھڑا للکار رہا ہے۔ اس نے کشمیر کو ہڑپ کر لیا ہے اور باقی ماندہ پاکستان پر بھی حریصانہ نگاہیں جمائے ہو ئے ہے۔بے روزگاری، انتشار،بد نظمی اور قرضوں کی بھر مار سے کوئی ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے؟دشمن کو ایک متحد قوم ہی شکست سے ہمکنار کر سکتی ہے لیکن یہاں تو قوم بری طرح سے منقسم ہے ۔قومی قائدین کو مقدمات،زندانوںاور احتساب کی چکی میں پیسا جا رہا ہے لہذا وہ حکومت کی رخصتی کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہیں۔موجودہ حکومت کا کام مخالفین کو گالیاں دینا اور انھیں رسوا کرنا رہ گیا ہے۔

پورا معاشرہ اخلاقی طور پربا نجھ ہو تا جا رہا ہے اور کوئی نہیں جو نئی نسل کو احترام اور اخلاقیات کا درس دے سکے کیونکہ جو ان کے رول ماڈل ہیں وہ تو سارے باہمی سر پھٹول میں مشغول ہیں۔حکومتی نا اہلی کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ ہمارے سب سے قریبی دوست ملائیشیا نے پی آئی اے کے طیارہ کوضبط کر لیا ہے۔ایٹمی قوت کے حامل ملک کے ساتھ اس طرح کا رویہ باعثِ شرم ہے ۔قسطیں ادا کرنا حکومت کی ذمہ داری تھی لیکن یہاں بھی سابقہ حکمرانوں کو ہی موردِ الزام ٹھہرا کر اپنی پارسائی کا دعوی کیا جا رہا ہے۔اپنے اوصاف کی بجائے دوسروں پر گند اچھالنے سے قومیں ترقی نہیں کرتیں۔قومیں اعلی افعال اور شاندار روایات سے ہی ترقی کرتی ہیں لہذا ہمیں قومی سر بلندی،ترقی،احترام اور استحکام کیلئے درخشندہ روایات کو زندہ کرنا ہو گا ۔،۔

Tariq Hussain Butt

Tariq Hussain Butt

تحریر : طارق حسین بٹ شان