سوڈان (اصل میڈیا ڈیسک) سوڈان کے دارفور علاقے میں اتوار کے روز پرتشدد واقعات میں 83 افراد ہلاک اور 160 دیگر زخمی ہو گئے۔ قبائلی تشدد کا یہ واقعہ ایسے وقت پیش آیا ہے جب اقو ام متحدہ اپنے تیرہ سالہ قیام امن مشن کو ختم کرنے پر غور کر رہا ہے۔
سوڈان میں دارفور علاقے کے ال جینینا شہر میں تشدد کے واقعات کے بعد مرنے والوں کی تعداد 83 ہو گئی ہے جبکہ ڈاکٹروں کی ایک یونین اور امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ تشدد کے اکا دکا واقعات اب بھی جاری ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ ملیشیا کے ان حملوں میں تقریباً 160 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
حقوق انسانی کے لیے سرگرم گروپ دارفور بار ایسوسی ایشن نے بتایا کہ ”مسلح ملیشیا نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ال جینینا پر چاروں طرف سے حملہ کر دیا۔”
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق سوڈان نے مغربی دارفور میں ریاست گیر کرفیو نافذ کردیا ہے۔ لیکن اتوار کے روز شہر میں فائرنگ ہونے کے باوجود لوگ ال جینینا میں کیمپ سے بھاگ رہے تھے۔
سنیچر کے روز کرنڈنگ کیمپ اور دیگر علاقوں پر حملہ آوروں نے حملے کرکے کنبے کے مردوں کو چاقو مار کر ہلاک کردیا گیا۔ ڈاکٹروں کی یونین نے لوگوں کی صحت کی سہولیات کو یقینی بنانے اور طبی عملہ کو ٹرانسپورٹ فراہم کرنے کی اپیل کی ہے تاکہ وہ زخمیوں کی مدد کرسکیں۔
اتوار کے روز ابو ذر کیمپ پر بھی حملہ ہونے کی اطلاعات ہیں۔
تشدد کے یہ واقعات ایسے وقت پیش آئے ہیں جب چند ہفتے قبل ہی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے اس خطے سے یواین۔افریقی یونین مشترکہ قیام امن مشن کو واپس بلانے کا اعلان کیا تھا۔
تیرہ برس کے بعد قیام امن مشن کی واپس ہورہی ہے اور مقامی لوگوں نے اس پر احتجاج بھی کیا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظا ہر کیا ہے کہ بین الاقوامی سکیورٹی فورسز کی غیر موجودگی میں تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
کوئی بارش، کوئی فصل نہیں، کھانے کو بمشکل کچھ دستیاب۔ افریقہ کو اس دہائی کے بد ترین بحران سکا سامنا۔ وہاں 14 ملین انسان خطرے میں ہیں۔ ایتھوپیا کی صورتحال ابتر ہے۔
طویل مدت تک اقتدار پر قابض رہنے کے بعد اور ایک عوامی تحریک کے نتیجے میں صدر عمر البشیر کی برطرفی کے بعد سوڈان اب جمہوریت کی راہ کی جانب گامزن ہے۔
حکومتی عہدیداروں نے سنیچر کے روز علاقے میں کرفیو نافذ کردیا، تمام بازاروں کو بند کرا دیا اور عوامی اجتماعات پر پابندی عائد کردی۔
خرطوم کی مرکزی حکومت نے خطے میں قانون و انتظام کی صورت حال پر قابو پانے کے لیے اعلی سطحی عہدیداروں کا ایک وفد روانہ کیا ہے۔
تشدد کے حالیہ واقعات نے تصادم سے دوچار دارفور خطے میں استحکام پیدا کرنے کی عبوری حکومت کی صلاحیت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
دارفور میں سن 2003 میں بڑے پیمانے پر نسلی تصادم کے واقعات پیش آئے تھے۔ جس کے نتیجے میں تقریباً تین لاکھ افراد ہلاک اور پچیس لاکھ سے زیادہ بے گھر ہوگئے تھے۔ حالانکہ اس کے بعد سے کشیدگی میں کمی آئی ہے تاہم تشدد کے اکا دکا واقعات اب بھی ہوتے رہتے ہیں۔
خطے میں تشدد کا ایک بنیادی سبب زمین اور آبی وسائل پر قبضہ کرنے کی کوشش بھی ہے۔
علاقے میں امن اور استحکام پیدا کرنے کی امید میں اقتدار میں شرکت کے ایک معاہدے کے تحت عبوری حکومت قائم کی گئی جس میں مقامی باغی گروپوں کو بھی شامل کیا گیا تاہم سب سے مقبول سوڈان لبریشن موومنٹ سمیت دو بڑے گروپوں نے اس عبوری حکومت میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔