سعودی عرب (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی عرب کے ہیومن رائٹس کمیشن نے پیر 18 جنوری کو اپنی تازہ رپورٹ پیش کی جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ 2020ء میں اس عرب بادشاہت میں محض 27 افراد کو سزائے موت دی گئی۔
سعودی عرب گزشتہ کئی سالوں سے موت کی سزا دینے والے سر فہرست ممالک میں شامل رہا ہے۔ مگر گزشتہ برس وہاں سزائے موت کی تعداد میں ڈرامائی کمی ریکارڈ کی گئی۔ اس کی بنیادی وجہ 34 سالہ ولی عہد شہزادے کی اپنی ریاست کو جدید اقدار پر گامزن کرنے کی کوششوں کو قرار دیا جا رہا ہے۔
سعودی عرب کے ہیومن رائٹس کمیشن نے پیر 18 جنوری کو اپنی تازہ رپورٹ پیش کی جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ 2020ء میں اس عرب بادشاہت میں محض 27 افراد کو سزائے موت دی گئی۔ جو ایک سال قبل یعنی 2019ء کے مقابلے میں 85 فیصد کم تعداد ہے۔ 2019ء کے دوران سعودی عرب میں 184 افراد کو سزائے موت دی گئی، جو کسی ایک سال کے دوران سزائے موت کی سب سے زیادہ تعداد تھی۔
سعودی ہیومن رائٹس کمیشن کا کہنا ہے کہ موت کی سزاؤں میں اتنی زیادہ کمی کی وجہ دراصل منشیات سے متعلق جرائم کے مرتکب افراد کو سزائے موت میں دی جانے والی قانونی مہلت بنی۔ خبر رساں ایجنسی اے پی نے گزشتہ برس اس بارے میں بھی اطلاع دی تھی کہ سعودی عرب نے نابالغوں کو سزائے موت دیے جانے کے خاتمے کا حکم دیا تھا اور کوڑے مارنے کی سزا کی بجائے جیل کی قید اور جرمانے جیسی سزائیں دینے کے احکامات بھی جاری کیے تھے۔
ریاض میں قائم اس مرکز میں انسانوں کو موت کی سزا دی جاتی ہے۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے جب سعودی ہیومن رائٹس کمیشن سے پوچھا کہ سزائے موت میں کمی کا قانون کب نافذالعمل ہوا، تو کمیشن نے بتایا کہ گزشتہ برس اس کا نفاذ ہوا تاہم ججوں کو دی جانے والی ان ہدایات کو عوامی طور پر شائع نہیں کیا گیا تھا نیز فوری طور پر یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا سزائے موت کے قانون میں اس تبدیلی کو شاہی فرمان کے ذریعے لایا گیا یا نہیں؟ سعودی بادشاہت میں قانون میں تبدیلی عام طور سے شاہی فرمان کے ذریعے لائی جاتی ہے۔
سزائے موت کے قوانین میں تبدیلیوں کے پیچھے شہزادہ سلمان کا ہاتھ بتایا جاتا ہے جنہیں اپنے والد شاہ سلمان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ شہزادہ سلمان نے گزشتہ کچھ عرصے کے دوران ملک میں متعدد ایسی سیاسی اور سماجی اصلاحات متعارف کروائی ہیں جن کے اثرات براہ راست اُن کی خارجہ پالیسی پر رونما ہوتے ہیں۔ محمد بن سلمان ملک کو جدید بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں جس کا اصل مقصد غیر ملکی سرمایہ کاری کو سعودی عرب کی طرف راغب کرنا اور ملکی معیشت کو بہتر کرنا ہے۔ انہوں نے بہت سی ایسی اصلاحات کی پہل کی ہے جس سے قدامت پسند وہابیوں کی سیاسی طاقت کو کم کرنے میں انہیں مدد مل سکتی ہے۔ سعودی عرب پر اسلام کی سخت ترجمانی کرنے والے وہابی مسلک کی اکثریت کا غلبہ ہے۔ پرنس سلمان سیاسی اور سماجی دونوں شعبوں میں اپنے ملک کی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی سرپرستی میں سعودی فلم سازوں کی ایک پوری نئی نسل آنے والے سالوں میں اثر و رسوخ کی جنگ کے لیے تیار کی جا رہی ہے، جس کے لیے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ملک کے تفریحی شعبے میں 64 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے۔
ایمنسٹی انٹر نیشنل نے سزائے موت کی تعداد کے حوالے سے اپنی فہرست میں سعودی عرب کو دنیا کا تیسرا سب سے زیادہ سزائے موت دینے والا ملک قرار دیا ہے۔ اس فہرست پر 2019ء میں چین اور ایران سب سے اوپر تھے، جہاں سزائے موت کی تعداد ہزاروں میں بتائی جاتی ہے۔ 2019ء میں سعودی عرب میں جن افراد کو موت کی سزا دی گئی ان میں 32 افراد شیعہ اقلیت سے تعلق رکھتے تھے جنہیں دہشت گردی کے الزام میں سزائیں سنائی گئیں۔ ان کی سرگرمیوں کا تعلق حکومت مخالف مظاہروں اور پولیس کے ساتھ تصادم سے تھا۔
سعودی عرب میں جو اسلامی قوانین یا شریعہ لاء رائج ہے اُس کی تشریح کے مطابق اسلام میں چند جرائم جیسے کہ قتل کی سزا تو مختص ہے مگر منشیات سے متعلقہ عوامل ایسے جرائم کے زمرے میں آتے ہیں جن کی نہ تو بحیثیت جرم وضاحت موجود ہے نہ ہی اس کی سزا مختص ہے۔ ایسے جرائم سے متعلق زیادہ تر فیصلے ‘صوابدیدی‘ ہوتے ہیں جو اکثر متنازعہ ہوا کرتے ہیں۔
ایک عرصے سے سعودی بادشاہت انسانی حقوق کے گروپوں کی تنقید کی زد میں ہے۔ اس کی وجہ غیر متشدد جرائم سے متعلق سزائے موت پر عملدرآمد ہے۔ جیسا کہ منشیات سے متعلقہ جرائم۔ ایسے جرائم کے سلسلے میں سعودی عرب میں جن افراد کو زیادہ تر پھانسی دی جاتی ہے ان میں سے زیادہ تر غریب یمنی باشندے یا جنوبی ایشیائی نسل کے نچلے درجے کے منشیات کے اسمگلرز شامل ہوتے ہیں۔ ان جنوبی ایشیائی افراد کو عربی زبان یا تو بہت تھوڑی یا بالکل نہیں آتی ہے اس کے سبب یہ عدالت میں اپنے خلاف لگائے گئے الزامات کو پڑھنے یا سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
سعودی عرب میں موت کی سزا سب سے زیادہ شیعہ اقلیت سے تعلق رکھنے والوے انسانوں کی دی جاتی ہے۔
ریاض حکومت کے انسانی حقوق کمیشن کے صدر اواد الواد کا کہنا ہے کہ ان کے ملک میں سزائے موت کی تعداد میں کمی اس امر کا ثبوت ہے کہ سعودی حکومت نظام انصاف کی بحالی اور سزا دینے کی بجائے جرائم کے روک تھام پر زیادہ توجہ دے رہی ہے۔ انہوں نے منشیات سے متعلق جرائم کے حوالے سے کہا، ’’منشیات سے متعلق جرائم کے مرتکب افراد کو قانونی مہلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ حکومت ایسے مجرموں کو دوسرا موقع دینا چاہتی ہے۔‘‘
اُدھر مشرق وسطیٰ کے ہیومن رائٹس واچ کے ڈائرکٹر ایڈم کروگ نے کہا ہے کہ سعودی عرب میں سزائے موت میں کمی ایک مثبت علامت ضرور ہے لیکن سعودی حکام کو اپنے ملک کے انتہائی ناانصافی پر مبنی قوانین پر توجہ دینا ہوگی۔ انہوں نے مزید کہا، ”ایک طرف حکام اصلاحات کا اعلان کرتے ہیں تو دوسری جانب سعودی استغاثہ اعلیٰ پروفائل والے قیدیوں کو محض ان کے نظریات اور سیاسی وابستگی کی وجہ سے سزائے موت سنانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘ ایڈم کروگ نے ریاض حکومت سے فوری طور پرمطالبہ کیا کہ وہ عدم تشدد والے جرائم پر سزائے موت کو ختم کرے۔