قطر (اصل میڈیا ڈیسک) مصری وزارت خارجہ کے مطابق قاہرہ اور دوحہ نے تین برس سے جاری اختلافات کو ختم کر تے ہوئے دوبارہ تعلقات بحال کرنے کا عہد کیا ہے۔
خلیجی ممالک کے حالیہ اجلاس کے بعد بدھ 20 جنوری کو قطر اور مصر نے پہلی بار سفارتی تعلقات دوبارہ شروع کرنے کے اپنے ارادوں سے متعلق ایک دوسرے کو باضابطہ آگاہ کر دیا ہے۔ سعودی عرب کی قیادت والے عرب ممالک کے اتحاد نے تین برس قبل قطر کا بائیکاٹ شروع کیا تھا۔ ان ممالک نے قطر پر دہشت گردی کی اعانت کرنے جیسے الزامات عائد کیے تھے۔
مصر کی وزارت خارجہ نے اعلان کیا کہ دونوں ملکوں نے، ”دوبارہ سفارتی رشتے قائم کرنے پر اتفاق کر لیا ہے۔” گزشتہ ہفتے قطر نے کہا تھا کہ وہ 2022 میں فٹبال ورلڈ کپ کی میزبانی کی تیاریاں کر رہا ہے اور ان تمام ممالک کے ساتھ اپنے رشتے استوار کرنے کا خواہش مند ہے۔
اس ہفتے پیر کے روز پہلی بار مصر کی سرکاری ایئر لائن ‘ایجپٹ ایئر’ کی ایک مسافر بردار فلائٹ نے دوحہ میں لینڈ کیا تھا اور پھر واپس مصر گئی تھی۔ 11 جنوری کو قطر ایئرویز نے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے لیے اپنی پروازوں کا آغاز کر دیا تھا اور کہا تھا کہ 25 جنوری سے وہ مصر کے سیاحتی شہر اسکندریہ کے لیے بھی اپنی پروازیں دوبارہ شروع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
سعودی عرب نے سن 2017 میں اپنے پڑوسی ملک قطر پر سخت ترین پابندیاں عائد کرتے ہوئے اپنی فضائی حدود اور سرحدیں بند کر دی تھیں۔ متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر بھی قطر کے خلاف ان پابندیوں میں شامل تھے۔ اس ماہ کے اوائل میں ان تمام ممالک نے ان پابندیوں کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
قطر دنیا میں سب سے زیادہ ’مائع قدرتی گیس‘ پیدا کرنے والا ملک ہے اور دنیا میں قدرتی گیس کے تیسرے بڑے ذخائر کا مالک ہے۔ یہ خلیجی ریاست تیل اور گیس کی دولت سے مالا مال ہے۔
مصر نے قطر سے اسلام پسند تنظیم اخوان المسلمین سے روابط ختم کرنے پر زور دیا تھا۔ مصر کے سابق صدر محمد مرسی کی حامی اس تنظیم پر موجودہ صدر عبد الفتاح السیسی نے پابندی عائد کر رکھی ہے۔ ملک کے پہلے جمہوری طور پر منتخب صدر مرسی کو فوجی سربراہ السیسی نے 2013 میں ہی معزول کر دیا تھا اور پھر خود ملک کے صدر بن گئے۔
مصر اور متحدہ عرب امارت کو لیبیا میں بھی ترکی اور قطر کے متحدہ موقف پر اعتراض ہے جہاں دونوں فریق ایک دوسرے کے مخالف گروپوں کے حامی ہیں۔
سعود ی عرب نے 16 جنوری کو اعلان کیا تھا کہ چند روز بعد ہی وہ قطر میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کی توقع رکھتا ہے اور مکمل طور پر سفارتی روابط بحال کرنے جا رہا ہے۔
سن 2017 کے وسط میں سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ملکوں نے دوحہ پر الزام لگایا کہ وہ شدت پسند اسلامی تحریکوں کی حمایت کر رہا ہے اور ان کے بڑے حریف ایران کے ساتھ اپنے روابط قائم کر رہا ہے۔
ان ممالک نے تعلقات کی بحالی کے لیے قطر کے سامنے تیرہ مطالبات رکھے تھے، جن میں الجزیرہ چینل کو بند کرنا، اخوان المسلمون سے تعلقات کو ختم کرنا اور ایران کے ساتھ رشتوں میں کمی کرنا شامل تھا۔
قطرنے، جو خطے میں امریکی فوج کے سب سے بڑے اڈے کی میزبانی کرتا ہے، ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ بائیکاٹ کا مقصد اس کی سالمیت اور خود مختاری کو نقصان پہنچانا ہے۔