امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) دنیا بھر کے سربراہان مملکت کو امید ہے کہ نئے امریکی صدر جو بائیڈن عالمی امور سے نمٹنے، پابندیاں ہٹانے اور دوطرفہ تعلقات میں بہتری لانے میں تعاون کریں گے۔
دنیا بھر کے رہنماؤں نے بدھ کے روز جو بائیڈن کے عہدہ صدارت سنبھالنے کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں مبارک باد پیش کی۔قبل ازیں کیپیٹل ہل کے احاطے میں منعقدہ ایک شاندار تقریب میں جو بائیڈن نے امریکا کے 46ویں صدر کے طور پر حلف لیا اور اس طرح ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کا خاتمہ ہو گیا، جنہوں نے عالمی سطح پر کثیر الجہتی تعاون کو بڑی حد تک ختم کر کے رکھ دیا تھا۔
عہدہ صدارت سنبھالنے کے فوراً بعد نئے صدر نے متعدد اہم احکامات پر دستخط کیے جس میں ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے اور عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) میں امریکا کی دوبارہ شمولیت جیسے اہم اقدام شامل ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ان معاہدوں سے امریکا کو الگ کر لیا تھا۔ نئی انتظامیہ نے ٹرمپ کی ملکی اور غیر ملکی پالیسیوں کو بدلنے سے متعلق تیزی سے فیصلے کرنے کی بات کہی تھی۔
دنیا کے تقریباً سبھی بڑے رہنماؤں نے کہا ہے کہ وہ ماحولیات اور کورونا وائرس کی وبا سمیت دیگر بین الاقوامی امور سے نمٹنے میں نئی امریکی انتظامیہ سے تعاون کے منتظر ہیں۔ کئی رہنماؤں نے امریکا کے ساتھ تعاون کے ایک نئے دور کے آغاز کی امید کے ساتھ بائیڈن سے ٹرمپ کی عائد کردہ پابندیوں کو ہٹانے کی اپیل بھی کی ہے۔
یورپی کونسل کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے صدر بائیڈن کو مباردک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ یورپ کے پاس واشنگٹن میں ایک دوست ہے۔ انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ”اس بار امریکی کیپیٹل ہل کی سیڑھیوں پر حلف برداری کی تقریب امریکی جمہوریت کی مضبوطی کا مظہر ہوگی۔”
جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے بائیڈن کی حلف برداری تقریب کو ”امریکی جمہوریت کے لیے اچھے دن” سے تعبیر کرتے ہوئے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ وہ امریکا کے ساتھ مل کر عالمی امور کو حل کرنے کے منتظر ہیں۔
انہوں نے کہا، ”امریکی اداروں کی ساخت کی دھجیاں اڑانے کی تمام کوشش کے باوجود، انتخابی حکام، گورنرس، عدلیہ اور کانگریس نے ثابت کردیا کہ وہ مضوط ہیں۔”
یورپیئن کمیشن نے ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے میں امریکا کی دوبارہ واپسی کے بائیڈن کے فیصلے کی ستائش کی ہے۔ کمیشن نے اپنے ایک بیان میں کہا، ”ہم ماحولیات کی تبدیلی کے حوالے سے دوبارہ ایک ساتھ لڑائی لڑنے کے لیے تیار ہیں۔”
فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں نے بھی اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا، ”پیرس معاہدے میں واپسی پر خیرمقدم ہے۔”
بائیڈن کے جرمن شیپرڈ نسل کے کتے کی ٹانگ اس وقت ٹوٹ گئی جب نومنتخب صدر اس کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ وائٹ ہاؤس میں قدم رکھنے سے پہلے اب بائیڈن کو ایک بلی دی جائے گی۔ وائٹ ہاؤس میں پہلی مرتبہ پالتو بلی امریکا کے دوسرے صدر رتھرفورڈ ہائس لائے تھے۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈیو نے بھی جو بائیڈن اور کمالا ہیرس کی نئی انتظامیہ کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ وہ ماحولیات اور کورونا وائرس جیسی وبا سے نمٹنے کے لیے ایک ساتھ مل کر کام کرنا چاہیں گے۔
ایرانی صدر حسن روحانی نے جوہری معاہدے میں امریکا کی دوبارہ واپسی کے حوالے سے کہا کہ گیند تو امریکا کے پالے میں ہے کہ وہ ایران پر عائد پابندیوں کا خاتمہ کر دے۔ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا، ”اگر امریکا سن 2015 کے جوہری معاہدے میں واپس ہوتا ہے تو ہم بھی معاہدے کے تحت اپنے تمام وعدوں کو پورا کرنے کے لیے تیار ہیں۔”
امریکا کا کہنا ہے کہ وہ اس معاہدے کے حوالے سے اپنے اتحادیوں کے ساتھ صلاح و مشورے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کرے گا۔
لاطینی امریکی ممالک میکسیکو اور برازیل کے سربراہان مملکت نے بھی جو بائیڈن کے صدر بننے پر مبارک باد پیش کی ہے اور معاشی ترقی جیسے امور پر ایک ساتھ مل کر کام کرنے کا عہد کیا ہے۔
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو نے جو بائیڈن کے ساتھ اپنی ذاتی دوستی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ امریکا کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات مزید مضبوط کرنے اور ایران کے خطرات سے نمٹنے کے لیے امریکا کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیں۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا کہ انہیں توقع ہے کہ امریکا اس خطے میں امن کے عمل کے لیے ایک الگ راستے کا انتخاب کریگا۔ انہوں نے زور دیا کہ ایک ایسے جامع اور انصاف پر مبنی امن عمل اپنانے کی ضرورت ہے جو فلسطینی عوام کی آزادی اور آزاد ریاست کی امنگوں پر کھرا اترتا ہو۔
جب صدر ٹرمپ نے اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کو یروشلم منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا، تو محمود عباس نے ان پر اسرائیل کے تئیں جانبدارانہ رویہ اپنانے کا الزام عائد کیا تھا۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا شمار سابق صدر ٹرمپ کے گہرے دوستوں میں ہوتا ہے۔ تاہم انہوں نے بھی بائیڈن کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے معاشی سطح پر آپسی تعاون کی مزید بہتر کرنے کی بات کہی ہے۔
جاپان کے وزیر اعظم یشوہیدے سوگا نے بائیڈن کی انتظامیہ کا یہ کہہ کر خیرمقدم کیا ہے کہ انہیں امید ہے امریکا اور جاپان کے درمیان معاشی تعلقات مزید بہتر ہوں گے۔