ترکی (اصل میڈیا ڈیسک) ترکی اور یورپی یونین کے باہمی روابط میں بہتری کی امید کے ساتھ ترک وزیر خارجہ چاوش اولو ایک سرکاری دورے پر برسلز پہنچ گئے۔ گزشتہ برس ترکی اور یونین کے مابین کشیدگی بہت ہی زیادہ ہو گئی تھی۔
ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو کے برسلز پہنچنے پر ان کا استقبال یورپی یونین کے اعلیٰ ترین سفارت کار اور اس بلاک کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل نے کیا۔ چاوش اولو کے اس دورے کا مقصد یورپی یونین کے دو اہم ترین رہنماؤں کے آئندہ دورہ ترکی کی تفصیلات طے کرنا ہے۔
یورپی کمیشن کی خاتون صدر اُرزُولا فان ڈئر لاین اور یورپی یونین کی کونسل کے صدر شارل میشل مستقبل قریب میں اس لیے انقرہ کا دورہ کریں گے کہ ان کو حال ہی میں اس دورے کی دعوت ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے دی تھی۔
برسلز میں آج جوزف بوریل کے ساتھ اپنی بات چیت کے آغاز پر ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو نے کہا، ”دوطرفہ بنیادوں پر تعمیری ماحول اور اشتراک عمل کے مثبت ایجنڈے کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ فریقین ایسے ٹھوس اقدامات کریں، جو دیرپا بنیادوں پر سود مند ثابت ہو سکیں۔‘‘
یورپی یونین اور ترکی کے مابین کشیدگی گزشتہ برس اس وقت ایک نئی انتہا تک پہنچ گئی تھی، جب ترکی نے چند متنازعہ سمندری علاقوں میں گیس کے نئے ذخائر کی تلاش کے لیے اپنا ایک بحری جہاز روانہ کر دیا تھا۔ یونان اور قبرص کے مطابق یہ متنازعہ سمندری علاقے دراصل ان دونوں ممالک کی حدود میں ہیں۔
اسی لیے ترک حکومت کے اس اقدام پر جب یونین کے دو رکن ممالک یونان اور قبرص نے شدید غصے کا اظہار کیا تھا تو نتیجہ انقرہ حکومت اور یونین کے مابین پہلے سے موجود کھچاؤ میں مزید اضافے کی صورت میں نکلا تھا۔
انقرہ حکومت کی طرف سے یونین کے ساتھ دوبارہ بہتر تعلقات کے سلسلے میں اب کافی گرم جوشی دکھائی جا رہی ہے۔ مولود چاوش اولو کے دورہ برسلز سے پہلے ترکی اور یونان نے سمندری حدود سے متعلق اپنے مشترکہ تنازعے کے حل کے لیے ایک بار پھر مذاکرات کی بحالی پر اتفاق کر لیا تھا۔
انقرہ اور ایتھنز کے مابین یہ بات چیت پچیس جنوری کو استنول میں ہو گی۔ دونوں ممالک کے مابین سمندری تنازعے سے متعلق یہ مذاکرات 2016ء سے معطل چلے آ رہے تھے۔
رواں ماہ کے اوائل میں ترک صدر ایردوآن نے یورپی کمیشن کی صدر فان ڈئر لاین کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت بھی کی تھی۔ اس گفتگو میں انہوں نے زور دیا تھا کہ انقرہ اور برسلز دونوں کو گزشتہ برس کی تلخیاں پس پشت ڈالتے ہوئے دوطرفہ روابط میں اب ایک نیا آغاز کرنا چاہیے۔
اسی تناظر میں انہوں نے یورپی کمیشن کی صدر فان ڈئر لاین اور یورپی کونسل کے صدر شارل میشل کو ترکی کے دورے کی دعوت بھی دی تھی۔
انقرہ کے ساتھ دوبارہ بہتر روابط کے سلسلے میں یورپی یونین کا اب تک کا موقف یہ ہے کہ ترکی سے ملنے والے نئے اشارے مثبت ہیں مگر انقرہ حکومت کو اپنے بیانات کو ٹھوس عملی اقدامات کی شکل بھی دینا ہو گی۔
ترکی مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن ہونے کی وجہ سے یورپی یونین کا اتحادی بھی ہے۔ مگر گزشتہ برس انقرہ اور برسلز کے مابین کشیدگی کی وجہ کئی ایسے بین الاقوامی سیاسی معاملات بنے تھے، جن پر یونین کو شدید اعتراض تھا۔
ان وجوہات میں انقرہ کے یونان اور قبرص کے ساتھ اختلافات، متنازعہ سمندی علاقوں میں گیس کی تلاش کا عمل اور جنگ زدہ شام، لیبیا اور نگورنو کاراباخ کے تنازعات میں ترکی کا کردار بھی شامل تھے۔