بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں حزب اختلاف کی جماعت کانگریس نے کسانوں کے احتجاج اور ارنب گوسوامی کی واٹس ایپ چیٹ کے حوالے سے مودی حکومت پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔
بھارت میں حزب اختلاف کی اہم جماعت کانگریس کی موجودہ صدر سونیا گاندھی نے مختلف امور کے حوالے سے نریندر مودی کی قیادت والی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت پر شدید نکتہ چینی کی ہے۔ انہوں نے پاکستان میں بالاکوٹ حملے کے حوالے سے متنازعہ ٹی وی اینکرارنب گوسوامی کی واٹس ایپ چیٹ پر حکومت کی خاموشی کو بہرے پن سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت نے قومی سلامتی سے پوری طرح سے سمجھوتہ کیا۔
کانگریس پارٹی کی ورکنگ کمیٹی کی میٹنگ کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر سونیا گاندھی نے کہا کہ عوام کی فلاح و بہود سے متعلق بہت سے اہم امور پر فوری توجہ کی ضرورت ہے اور ایسے تمام مسائل پر پارلیمان کے آئندہ اجلاس میں بحث ہونی چاہیے۔
پلوامہ میں شدت پسندوں کے حملے اور اس کے بعد بالا کوٹ واقعے پر بھارتی ٹی وی میزبان ارنب گوسوامی کی واٹس ایپ چیٹ کا ذکر کرتے ہوئے محترمہ گاندھی نے کہا،’’اس طرح کی ایک رپورٹ ہمارے سامنے آئی ہے کہ کس انداز میں قومی سلامتی پر سمجھوتہ کیا گیا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ سابق وزیر دفاع اے کے انٹونی نے چند روز پہلے اس کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوجی آپریشن سے متعلق ایسی خفیہ معلومات کو افشا کرنا ملک سے غداری کے زمرے میں آتا ہے،’’لیکن ان سب کے باوجود جو کچھ بھی سامنے آیا ہے اس پر حکومت کی خاموشی، بہرا پن ہے۔ جو لوگ دوسروں کی حب الوطنی اور قوم پرستی پر سوالات اٹھاتے رہتے ہیں، وہ خود پوری طرح سے بے نقاب ہو گئے ہیں۔‘‘
برصغیر پاک و ہند کی تحریک آزادی کے بڑے رہنماؤں میں شمار ہونے والے جواہر لال نہرو پریانکا گاندھی کے پڑدادا تھے۔ وہ آزادی کے بعد بھارت کے پہلے وزیراعظم بنے اور ستائیس مئی سن 1964 میں رحلت تک وزیراعظم رہے تھے۔ اندرا گاندھی اُن کی بیٹی تھیں، جو بعد میں وزیراعظم بنیں۔
بھارتی وزیراعظم مودی کے کٹر حامی سمجھے جانے والے ٹی وی میزبان اور ریپبلک میڈیا نیٹ ورک کے خود پسند ایڈیٹر ان چیف ارنب گوسوامی اور ٹی آر پی ریٹنگ پر نگاہ رکھنے والے ادارے بارک کے سابق سربراہ داس گپتا کے درمیان کی واٹس ایپ چیٹ میڈیا میں حال ہی میں لیک ہوگئی تھی۔ اس چیٹ میں کشمیر کے پلوامہ میں ہونے والے حملے اور اس کے جواب میں پاکستان کے بالاکوٹ پر بھارتی فضائیہ کی مبینہ سرجیکل اسٹرائیک کا ذکر ہے۔ یہ بات چیت سرجیکل اسٹرائیک سے تین دن پہلے کی گئی تھی۔
اس وائرل واٹس ایپ چیٹ میں گوسوامی، داس گپتا سے کہتے ہیں کہ ‘کچھ بڑا‘ ہونے والا ہے۔ جس کے بعد جب ان سے کہا گیا کہ کیا وہ داؤد کے حوالے سے ہے تو ارنب جواب دیتے ہیں ’’نہیں سر، پاکستان۔ اس مرتبہ کچھ اہم ہونے جا رہا ہے۔‘‘ داس گپتا اگلے جواب میں جب حملے کا ذکر کرتے ہیں تو ارنب کہتے ہیں ”نارمل اسٹرائیک سے بڑی اسٹرائیک ہونے والی ہے اور اسی وقت کشمیر میں بھی کچھ اہم ہو گا۔”
قابل ذکر ہے کہ 14 فروری 2019 کو پلوامہ پر دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا جس میں بھارتی نیم فوجی دستے سی آر پی ایف کے 40 جوان مارے گئے تھے۔ بھارت نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے پاکستان کے بالا کوٹ پر سرجیکل اسٹرائیک کی تھی۔ تاہم بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے پلوامہ حملے اورسرجیکل اسٹرائیک دونوں پر سوالات اٹھائے تھے اور اسے مارچ میں ہونے والے عام انتخابات کے لیے سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا۔
سونیا گاندھی نے کسانوں کے احتجاجی مظاہرے کے حوالے سے بھی مودی حکومت پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے بات چیت کے مختلف ادوار میں حیران کن تکبر کا مظاہرہ کیا ہے اور وہ اس معاملے پر پوری طرح سے بے حس ہوچکی ہے۔
بھارتی شہر امرتسر میں سکھ مذہب کے پیروکاروں کا مقدس ترین مقام ’گولڈن ٹیمپل‘ واقع ہے۔ چھ جون کو اس عبادت گاہ پر حملے کے تیس برس مکمل ہو گئے۔ چھ جون 1984ء کو بھارتی فوج نے ’آپریشن بلیو سٹار‘ کے دوران اس عبادت گاہ میں گھس کر سینکڑوں افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے کی تیس ویں برسی کے موقع پر بھی گولڈن ٹیمپل میں ایک آزاد وطن کے حق میں نعرے لگائے گئے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تحریک کمزور پڑ چکی ہے۔
ان کا کہنا تھا،’’یہ بات پوری طرح سے واضح ہے کہ زراعت سے متعلق تینوں قانون جلد بازی میں تیار کیے گئے تھے۔ ان قوانین کے اثرات کیا مرتب ہوتے یا پھر اس سے نقصان کیا ہوتا، ان تمام پہلوؤں کے جائزے سے بھی شعوری طور پر پارلیمان کو باز رکھا گیا۔”
” اس پر ہمارا موقف ابتداء سے ہی بالکل واضح ہے: ہم ان قوانین کو پوری طرح مسترد کرتے ہیں کیونکہ وہ غذائی تحفظ کی بنیادوں کو ختم کردیں گے، جو ایم ایس پی، (کم از کم سپورٹ قیمت) عوامی خریداری اور پی ڈی ایس (عوامی تقسیم نظام) کے تین ستونوں پر مبنی ہے۔”
کانگریس ورکنگ کمیٹی کا یہ اجلاس پارٹی صدر کے انتخاب کے لائحہ عمل کو طے کرنے کے لیے بلا گیا ہے۔ اس اجلاس کے بعد یہ فیصلہ ہو گا کہ پارٹی کے صدر کے لیے ووٹنگ کب کرائی جائے گی۔ کئی سرکردہ رہنماؤں کا مطالبہ ہے کہ پارٹی کی اعلی ترین فیصلہ ساز ورکنگ کمیٹی کے ارکان کے لیے بھی انتخابات کروانے کی ضرورت ہے، تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ ورکنگ گروپ کے انتخابات ہوں گے یا پھر ان پر بعد میں فیصلہ کیا جائے گا۔