امیر المومنین حضرت عمر نے فرمایا ”حکومت کے منصب کے لیے ایسا شخص سب سے موزوں ہے کہ جب وہ اِس منصب پر فائز نہ ہو تو قوم کا سردار نظر آئے اور جب اِس پر فائز ہو تو انہی میں سے ایک نظر آئے”۔ سات عشرے گزرنے کے باوجود تاحال قوم کو کوئی ایسا شخص میسر نہیں آیا جو اِس معیار کے قریب بھی پہنچ سکے۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت ہو یا آمریت ہردَور میں ہیجانی کیفیت ہی رہی۔ اِس خطۂ بینظیر کی تقدیر بدلنا بزعمِ خویش اشرافیہ کے بَس کا روگ نہ ایسے حکمرانوں کا مقصوو جنہیں مسجودِ ملائک سے اتنا بھی پیار نہیں جتنا اپنے ”کُتوں” سے۔ مجبورومقہور عوام کے اُکھڑے حرفوں کی کتابِ زیست پہ سوائے یاس کی داستانوں اور برگِ آرزو کی معکوس تعبیر کے اور کچھ نہیں۔ قوم کا مقدر گدائی اور اِس کے خون سے کشید کیا گیا ہر قطرہ ”کُشتۂ شاہی”۔ لیکن نام نہاد اشرافیہ بھول چکی کہ مایوسیوں کا رَدِ عمل ہمیشہ انقلابِ فرانس جیسے خونی انقلاب کا باعث بنتا ہے جس میں سروں کی فصل کاٹی جاتی ہے۔
وہ تاریخ کے اوراق پلٹ کے دیکھیں کہ زَر وجواہر کی ہوس کا مآل کیا ہوتا ہے۔ بغداد کو تاراج کرنے کے بعدہلاکو کی قید میں موجود کئی دن کے بھوکے خلیفہ کے سامنے کھانے کے لیے کپڑے سے ڈھکا ہوا تھال پیش کیا گیا اور ہلاکو خاں نے عباسی خلیفہ کو کھانا کھانے کے لیے کہا۔ جب تھال سے کپڑا ہٹایا گیا تو وہ ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا تھا۔ زروجواہر دیکھ کر خلیفہ نے کہا”ہیرے کیسے کھاؤں؟”۔ ہلاکو نے کہا ”اگر تم اِن ہیروں سے اپنے سپاہیوں کے لیے تلواریں اور تیر بنا لیتے تو میں دریا عبور نہ کر پاتا”۔ خلیفہ نے کہا ”خُدا کی یہی مرضی تھی”۔ ہلاکو بولا ”اب میں جو تمہارے ساتھ کرنے جا رہا ہوں، وہ بھی خُدا ہی کی مرضی ہے”۔ پھر خلیفہ کو نمدوں میں لپیٹ کر اُس پر گھوڑے دوڑا دیئے گئے۔ تاریخ کا سبق تو یہی مگر تاریخ کو کون یادر کھتاہے۔
اہلِ صحافت میں سے انگلیوں پر گنے چند ایسے کہ جب تک اُن کے خون میں دھڑکن اور نطق سلامت ہے وہ بولتے اور لکھتے رہیں گے کہ ہر حکمران نے قوم کو ایک حد تک مایوس ہی کیا لیکن یہاں صر صر کو صبا کہنے والے بھی بہت جن کے خواہشوں کی جھلمل سے آلودہ قلم شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار۔ کتنے ہوںگے صحافت کو سیادت سمجھنے والے؟ ۔ ایسے میں مولانا فضل الرحمٰن کا اعلانِ جہاد کاسہ لیسوں کے لیے نعمتِ غیرمترقبہ۔ اب وہ جلتی پر تیل ڈالنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
19 جنوری کو الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاجی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مولانا نے فرمایا ”ہم نے پگڑیاں سَر اُٹھانے کے لیے باندھی ہیں۔ اگر عزت نہیں ہوگی تو پھر یہ پگڑیاں اُتر جانی چاہییں۔ حکمرانوں کے خلاف تحریک شرعی لحاظ سے جہاد ہے اِس سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ چور حکمرانوں کے خلاف میدانِ جہاد میں رہنا ہے۔ ہم نے جدوجہد کرکے قوم کو اِس کرب سے نکالنا ہے۔ ہمیں گردن اُٹھا کر چلنا آتا ہے، جھکا کر نہیں۔ حکمران پاکستان کے ماتھے پر بدنما داغ ہیں۔ یہ داغ ہمیں اپنے خون ہی سے کیوں نہ دھونے پڑیں، دھوئیں گے۔ اگر کوئی بزدل ہے تو ہماری صفوں سے نکل کر اپنے گھروں میں بیویوں کے ساتھ جا کر بیٹھ جائے”۔ مولانا صاحب کا یہ دبنگ خطاب پوری قوم نے سنا ہو گا کہ ٹی وی اب ہر گھر کی زینت۔
یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے مولانا سرحدوں پر کھڑے ہو کر دشمن کو للکار رہے ہوں۔ اپنے ہی ملک کے سلیکٹڈ یا الیکٹڈ حکمران کو ہٹانے کے لیے مولانا نے جو دھمکی آمیز خطاب کیا وہ ملک کو انارکی کی طرف لے جاتا ہے جو مولانا کو بھی ہرگز قبول نہ ہوگا۔ شاید جوشِ خطابت میں مولانا وہ زبان استعمال کر گئے جو صرف تحریکِ انصاف ہی کو زیب دیتی ہے یا پھر شیخ رشید جیسے شخص کو جو نوازلیگ کے دور میں جلاؤ گھراؤ مارو مرجاؤجیسے نعرے لگا کر تحریکِ انصاف میں اپنی جگہ بناتا رہا۔ مولانا منجھے ہوئے سیاستدان ہیںاور خوب جانتے ہیں کہ وزیرِاعظم کے گرد کئی ابوعلقمی (ہلاکو کو بغداد پر حملہ کرنے کی ترغیب دینے والا مستعصم باللہ کا وزیرِخاص) موجود ہیں جن کا مطلوب ومقصود اپوزیشن کو صفحۂ ہستی سے نابود کرناہے۔ شایدخاں نہیں جانتا کہ یہ سبھی تو پنچھی ہیں جو ٹھکانے بدلتے رہتے ہیں۔ اِس لیے مولانا کے لیے ایسی باتوں سے گریز ہی بہتر۔
ویسے بھی یہ حکومت ایسی کہ جس کی اپوزیشن بھی وہ خود ہی ۔ پچھلے اڑھائی سالوں میں موجودہ حکومت نے کون سے تیر مار لیے جو اگلے اڑھائی سالوں میں مار لے گی۔ ہر طرف افراتفری کا عالم۔ کہیں آٹا اور چینی کے سکینڈل، کہیں براڈشیٹ کے بھاری جرمانے اور کہیں سب سے بڑھ کر ملائیشیا میں پی آئی اے کا طیارہ قانون کی گرفت میں جو ہماری غیرتوں پر تازیانہ۔ یہ حکومت گزشتہ اڑھائی سال سے قوم کو محض وعدوں اور ارادوں پہ ٹرخا رہی ہے اور اب تو اِس کے خیرخواہ بھی مایوس۔ اُن کی اُمیدیں بھی دم توڑ رہی ہیں اور باقی مدت پوری ہونے پراِس حکومت کا دفاع کرنے والا بھی کوئی باقی نہیں بچے گا۔ یہ حکومت جس کرپشن فری نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئی، اُس کا نتیجہ بھی صفر۔ اب یہ بیانیہ بھی پِٹ چکا کہ بین الاقوامی سرویز کے مطابق کرپشن پہلے سے بڑھ چکی۔ اِس لیے مولانا کو وہ زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے جو 2014ء کے دھرنے میں عمران خاں نے استعمال کی اور اگر میاں نوازشریف مصلحت اور صبر سے کام نہ لیتے تو سقوطِ ڈھاکہ جیسا کوئی سانحہ رونما ہو سکتا تھا۔
ہماری اندرونی چپقلش اور حماقتوں سے ہمارے ازلی ابدی دشمن بھارت کو مشرقی پاکستان میں دَراندازی کرنے کا موقع ملا جس سے ہمارا ایک بازو الگ ہوگیا۔ قوم آج تک وہ سولہ دسمبر نہیں بھولی جب ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہماری غیرتوں پہ تازیانے لگائے گئے۔ آج ہمیں ایک دفعہ پھر اندرونی طور پر کمزور کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ پڑوسی بھارت کشمیر کو ہڑپ کرنے کے بعد پاکستان کی سالمیت کے درپے ہے لیکن ہم اپنوں کے خلاف ہی جہاد کا اعلان کر رہے ہیں۔ مانا کہ موجودہ حکومت نے قوم کو انتہائی مایوس کیا ہے لیکن اِس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ ہم اپنوں کے خلاف ہی جہادی فتوے دیتے رہیں۔ یہ بجا کہ حکمران نااہل اور نالائق، یہ بھی عین حقیقت کہ پی ڈی ایم کا نعرہ آئین وقانون کے عین مطابق لیکن کیا قوم کسی اور ”سقوطِ ڈھاکہ” کی متحمل ہو سکتی ہے؟۔ایسے میں اپوزیشن کے منجھے ہوئے سیاستدانوں کو ہر قدم پھونک پھونک کر رکھنا ہو گا۔