امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکی صدر جو بائیڈن کی نئی انتظامیہ نے کہا ہے کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں افغان طالبان کے ساتھ کی جانے والی امن ڈیل پر نظر ثانی کی جائے گی۔ دریں اثناء افغان طالبان اور کابل حکومت کے مابین مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ یہ جاننا چاہتی ہے کہ افغان طالبان نے دوحہ امن ڈیل کی شرائط پر کس حد تک عمل کیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے قومی سکیورٹی کے مشیر جیک سولیوان نے اپنے افغان ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگو میں یہ بھی واضح کیا کہ اس بات کا جامع تجزیہ ضروری ہے کہ سابق امریکی حکومت اور طالبان کے مابین طے پانے والی اس ڈیل کی نکات کیا ہیں اور ان پر عمل درآمد کس طرح ہو سکتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سولیوان نے واضح کیا ہے کہ فروری سن دو ہزار بیس میں امریکا اور طالبان کے مابین دوحہ امن ڈیل پر نظر ثانی کے علاوہ اس بات کا تجزیہ بھی کیا جائے گا کہ اس معاہدے کے بعد طالبان تشدد میں کتنی کمی لائے ہیں، اس گروہ نے دیگر انتہا پسند گروپوں سے اپنے رابطے کس حد تک ختم کیے ہیں اور اس نے افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی خاطر کیا اقدامات کیے ہیں۔
گیارہ ستمبر 2001ء کو القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے مجموعی طور پر چار مسافر طیارے اغوا کیے۔ دو کے ذریعے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ کیا۔ ایک تیسرے جہاز کے ساتھ امریکی پینٹاگون کو نشانہ بنایا گیا جبکہ چوتھا طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ ان حملوں میں کل تین ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
سولیوان کے مطابق اس ڈیل کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ طالبان اس ڈیل کے تحت طے پائے جانے والے سبھی نکات کا احترام کریں۔ امریکی صدر جو بائیڈن کے اعلیٰ سفارت کار نے یہ بھی کہا کہ وہ افغانستان میں گزشتہ بیس سالوں سے جاری جنگ کو ہمیشہ کے لیے ختم کرتے ہوئے اپنے فوجیوں کی وطن واپسی چاہتے ہیں۔
اس وقت افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی تعداد ڈھائی ہزار ہے، جو سن دو ہزار ایک میں افغان جنگ شروع ہونے کے بعد سے وہاں متعین امریکی فوجیوں کی کم ترین تعداد ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے امن ڈیل کے تحت عہد کیا تھا کہ وہ افغانستان سے اپنے فوجیوں کو واپس لے آئے گی۔
گزشتہ برس انتیس فروری کو طے پانے والی دوحہ امن ڈیل کے تحت افغان طالبان نے یہ بھی تسلیم کیا تھا کہ وہ افغانستان کی سرزمین پر انتہا پسند گروپوں کو اپنی کارروائیوں سے روکیں گے، اپنے حملوں کو ختم کریں گے اور کابل حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کا سلسلہ شروع کریں گے۔
اس امن ڈیل کے تحت البتہ طالبان اور کابل حکومت کے مابین امن مذاکرات کا سلسلہ ابھی تک شروع نہیں ہو سکا ہے۔ ادھر افغان صدر اشرف غنی کے مشیر وحید عمر کا کہنا ہے کہ طالبان نے ابھی تک اپنے حملوں میں کمی نہیں کی ہے بلکہ اس میں اضافہ کر دیا ہے۔ کابل کا یہ الزام بھی ہے کہ طالبان قومی سطح پر امن مذاکرات شروع کرنے میں بھی ناکام رہیں ہیں۔
یہ تصویر سن 1962 میں لی گئی تھی۔ اس میں کابل یونیورسٹی کی میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت خواتین افغان معاشرے میں اہم کردار ادا کرتی تھیں۔ خواتین کو تعلیمی سہولیات میسر تھیں اور وہ گھروں سے باہر نکل کر کام کر سکتی تھیں۔
طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والے افغان حکومتی وفد میں شامل ایک رکن نے کہا ہے طالبان کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ لڑائی کے ذریعے اقتدار حاصل کیا جا سکتا ہے، جو ایک ’خطرناک ذہنیت‘ ہے۔
قطر میں امریکی مذاکرات کاروں اور طالبان جنگجوؤں کے نمائندوں نے آخر کار افغانستان میں قیام امن کے معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ اس معاہدے سے انٹرا افغان مذاکرات کی راہ بھی ہموار ہو گئی ہے۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اپنے دورہ کابل کے دوران افغانستان میں تشدد کم کرنے کے لیے کردار ادا کرنے کی بات کی ہے لیکن کئی مبصرین یہ سوال کر رہے ہیں کہ کیا اسلام آباد واقعی یہ کردار ادا کر بھی سکتا ہے یا نہیں۔