صبح آنکھ کھلنے سے لیکر رات بستر پر جانے تک تقریبا سات سو کے قریب اخبارات کی شہہ سرخیاں پڑھنا میری عادت میں شامل ہو چکا ہے جب تک یہ تمام اخبارات کو پڑھ نہ لوں ایسے لگتا ہے جیسے آج کچھ کھویا کھویا سا ہے جو مجھے مل نہیں رہا ، روح بے سکونی کے عالم میں رہتی ہے ، جسم نڈھال سا نشئیوں جیسا محسوس ہوتا رہتا ہے ،یہ سب کر چکنے کے بعد دو گھنٹے لکھا نہ جائے بے شک وہ دفتر کا حساب کتاب ہی کیوں نہ ہو روح کو تسکین ہی نہیں ہوتی ۔میں جب بھی ای میلز چیک کرتا ہوں تو رائیونڈ شہر کے مسائل کا خبروں میں ذکر ضرور ہوتا ہے کبھی پانی کا مسئلہ ، کبھی سڑکوں کا ، کبھی نکاسی آب کا ، کبھی بجلی کا ، کبھی ریلوے کی خرد برد کا ، کبھی قرعہ اندازی کے ذریعے سے اپنوں کو نوازتے ہوئے ماڈل بازاروں کی شاپس کا ، کبھی ٹریفک جام رہنے کی وجہ منتھلیاں لیکر افسران بالا کی خاموشی کا ، کبھی گول چکر والے پُل کی لاگت میں غبن کا ، کبھی شریف شہریوں کو دکانوں کے سامنے تجاوزات کو ہٹانے بہانے بھتہ خوری کا ،کبھی بچوں اور بچیوں کے اسکولوں کے سامنے لگے چکن اور مٹن و دیگر شاپس کاجو بچوں اور بچیوں کی آمدورفت میں ذہنی کوفت کا سبب بنتے ہیں۔
کبھی سیوریج کی بندش کا ، کبھی سی او یونٹ کے عملہ کے ڈیزل بیچنے کا ، کبھی سول و انڈس ہستال میں عملہ کی مریضوں اور لواحقین سے بدتمیزیوں کا ، کبھی آوارہ کتوں کی بہتات اور کاٹنے سے سکول جانے والے ننھے ننھے بچوں کے زخمی ہونے کا، کبھی ہوٹلوں پر ناقص کھانوں کا ، مردہ گوشت کا شوارمااور چکن برگر میں استعمال کا ، کبھی ریڑھی بانوں کے بازاروں پر قبضہ کرنے کا ، کبھی شہر کے لیے خوبصورت بنائے گئے پارکوں کی بد حالی کا ،کبھی ریلوے روڈ پر ٹیکسی،مزدا،رکشہ اسٹینڈ بنا کر قبضہ ،بھتہ ،جگا لینے جیسے عوامل کا ، کبھی بھاری فیسوں کے عوض سہولیات نہ دینے والے سکولوں کا ، کبھی سینٹری انچارجز کا بوگس بھرتیاں کر کے جعلی حاضریاں لگاکر بہت سا مال مفت ہضم کرنے کا ، کبھی ٹیوب ویل خراب کر کے جان بوجھ کر ریپرنگ کروانے کی مد میں ہزاروں ہڑپنے کا ، کبھی ایسے افراد کا نام بھی پڑھنے کو ملتا ہے کہ جو بظاہر تو اپنے گھر کے کام کاج میں مصروف نظر آتے ہیں مگر تنخواہ سرکار سے لیتے ہیں بس ایک دن حاضر ہوتے ہیں جس دن تنخواہ وصول کرنا ہوتی ہے۔
کبھی جعلی ہائوسنگ اسکیموں کے سادہ لوح عوام کو دئیے جانے والے دھوکے کا ، کبھی سادہ لوح عوام کو چونا لگانے والے جعلی عاملوں کا ، کبھی عطائیوں ، نیم حکیموں کی بھینٹ چڑھ جانے والے لا وارث مریضوں کا جن کو بعد میں علاقہ کے بڑے گُرو پچاس ہزار سے دو لاکھ دلوا کر طفل تسلیاں دے کر معاملہ کو دبا دیتے ہیں ، کبھی ناجائز پٹرول ایجنسیوں کی بھر مار کا ، گیس ری فلنگ سے بارہا درجنوں جانی نقصانات کا ، کبھی پٹواریوں کے ہاتھوں اپنی جمع پونجی گنوانے جیسے واقعات کا ، کبھی سستے بازاروں کی آڑ میں گھنائونے دھندوں کا ، کبھی نوکریوں کے بہانے عزتوں کے پامال کیے جانے کا ، کبھی نادرا آفس کے چکر پر چکر لگا کر بالآخر ہزار دو ہزار کے عوض نمبر حاصل کرنے کا ، کبھی یونین کونسلز کے سیکرٹریز کی بدعنوانیوں کا ، کبھی سکول کونسلز کے اندر گٹھ جوڑ کر کے معاملات اندر کھاتے نمٹا کر فنڈ کی بندر بانٹ کا ، کبھی افسران کے تبادلوں کے لیے نوٹوں کے بیگوں کے منہ کھولنے کا ، کبھی بیگر ہائوس کے نام پر بڑا مال ڈکارنے کا ، کبھی لٹکتی تاروں سے قیمتی جانوں کے ضیائع کا ، کبھی گیس کی ان علاقوں میں بندش کا جن محلوں میں غریب غربا ووٹر رہتے ہیں اور کرتا دھرتائوں کے محلوں میں گیس پریشر کے پورا ہونے کا ، کبھی انجمنوں کے الیکشنز کے نام پر بڑے عہدوں کی بندر بانٹ کر کے لاکھوں کے فنڈ ہڈپ کر نے کا ،تھانہ کچہری کی سیاست عام ہونے کا ، غریب کو بلبلانے پر انصاف نہ ملنے کا ، امیر کی ٹیلی فون گھنٹی بجنے پر جی سر کی رپورٹ حکم کی تعمیل جیسے رٹے رٹائے الفاظ کی بازگشت کا ۔ خیر یہ تو نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے سمجھنے والے سب سمجھ چکے ہوں گے میں التماس کرتا ہوں اپنے ان کرم فرمائوں سے ، رہنمائوں سے ،لیڈروں سے ، فلاحی ٹھیکیداروں سے جو ہر کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے کہ ان کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے جائیں براہ کرم سوچیں بہت دیر ہوگئی ہے۔
اس شہر کو مصائب کا مقابلہ کرتے ہوئے میںبھی لکھ لکھ کر اعصابی مریض بنتا جا رہا ہوں سوچیں جو ان مصائب سے دو چار ہیں ان کے اعصاب کس قدر جواب دے چکے ہوں گے وہ جائیں تو کہاں جائیں ، اداروں کے پاس جائیں تو سننے کو ملتا ہے کہ فلاں فلاں چوہدری کہے گا تو کام ہو گاورنہ لٹکتے رہو ، لگاتے رہو چکر پر چکر۔ ان کرم فرمائوں سے گزارش ہے یہ عوام الناس بس دو وقت کی روٹی کما کراپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال سکتی ہے یہ اپنا حق لینے ، چھیننے کی سکت نہیں رکھتی تو آپ ہی اب ان پر ترس کھا لیں بنا دیں ان کو اب نیا رائیونڈ ،وہ رائیونڈ جس میں ایک فون کال پر ادارے شہری کو رسپانس کرتے نظر آئیں ، وہ رائیونڈ جس میں پٹواری شہریوں کی زمینوں کی فردوں ،گرداوریوں کے عوض ہزاروں نہ بٹورے بلکہ سرکاری فیس پر ایمانداری سے کام کرتا نظر آئے ، وہ رائیونڈ جس میں تین دن بھی بارش ہوتی رہے تو جب تھمے تو چند منٹ بعد پانی کا بوند نظر نہ آئے ، وہ رائیونڈ جس میں دکاندار اپنی ملکیتی حدود سے تجاوز نہ کر سکیں ، وہ رائیونڈ جہاں صحت مند قوم پیدا ہو ، وہ رائیونڈ جو ہشاش بشاش ہو ، وہ رائیونڈ جس کے شہریوں کو مسجد ، امام بارگاہ ، چرچ جانے کے لیے گندے پانی سے نہ گزرنا پڑے ، وہ رائیونڈ جہاں پر صاف شفاف پانی پینے کو مل سکے ، وہ رائیونڈ جہاں لوگ جعلی عاملوں کی بجائے اپنے رب سے رابطے میں آ جائیں ، وہ رائے ونڈ جہاں ٹریفک کا نظام اس قدر شاندار ہو کہ پنجاب میں مثال دی جا سکے ، وہ رائیونڈ جس میں گندگی کے ڈھیر نظر نہ آئیں ، وہ رائیونڈ جہاں غریبوں کو فری کھانا میسر ہو، وہ رائے ونڈ جہاں کسی کے پلاٹ پر قبضہ نہ ہو سکے ، وہ رائیونڈ مریضوں کو لوٹا نہ جا سکے ، وہ رائیونڈ جہاں پولیس عوام کی خدمت کے لیے فورا رسپانس کرے ، وہ رائیونڈ جہاں منشیات فروشی جیسی لعنت نہ ہو، وہ رائے ونڈجہاں پر معیاری تعلیمی سہولیات ہوں ، وہ رائیونڈ جہاں پر ناقص غذائیں نہ ہوں ، وہ رائیونڈ جس کا صحافی اپنی جان پر کھیل کر بھی صرف سچ لکھے کسی کے دبائو،چاپلوسی،لگا لپٹی کی بجائے بس مقدس شعبے سے وفا کرے ۔میں پوچھتا ہوں کہ حلقہ کے کرتا دھرتا کب بنائیں گے یہ نیا رائے ونڈ ؟؟؟کب بنائیں گے ؟؟؟