امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) نئے امریکی صدر نے عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار اپنے فرانسیسی ہم منصب سے بات چیت میں یورپی یونین اور نیٹو کے ساتھ رشتے مضبوط کرنے کے امریکی عزم کا اعادہ کیا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں نے مشترکہ خارجہ پالیسی کی ترجیحات کے تحت چین، مشرق وسطی، روس، اور مغربی افریقہ کے ساحلی خطے سمیت مختلف امور پر ایک ساتھ مل کر کام کرنے کا عہد کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے اتوار کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے فرانسیسی ہم منصب سے فون پر بات چیت کی ہے اور انہوں نے اپنے، ”سب سے پرانے اتحادی کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کو مزید مضبوط کرنے” کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق بائیڈن نے بات چیت میں، ”نیٹو اور امریکا کی یوروپی یونین کے ساتھ شراکت داری سمیت، بحر اوقیانوس کے پار تعلقات کو تقویت دینے کے اپنے عزم پر زور دیا۔”گزشتہ بدھ کے روز حلف لینے کے بعد دونوں رہنماؤں کے درمیان یہ پہلی بات چیت تھی۔
فرانس کے صدر میکروں کے ایک معاون نے اس بات چیت سے متعلق ایک الگ بیان میں کہا کہ ماحولیات اور کورونا وائرس جیسے امور پر دونوں رہنماؤں کا موقف ایک ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ دونوں رہنماؤں نے، ”آس پاس اور مشرق وسطی، خاص طور پر ایران کے جوہری مسئلے پر، امن مساعی پر کام کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی۔”
ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے دور اقتدار میں ”امریکا پہلے” کی جو پالیسی اختیار کی تھی اس سے امریکا اور یورپ کے بعض ممالک کے درمیان دیرینہ تعلقات متاثر ہوئے اور بائیڈن کی فون کال کو اسی تاثر کو زائل کرنے کی ایک کوشش قرار دیا جا رہا ہے کہ وہ ان پالیسیوں میں تبدیلی لائیں گے اور امریکا یورپ کے ساتھ تعلقات کو مزید بہتر کرنے کے راستے پر چلے گا۔
یورپی یونین کے رہنماؤں اور ٹرمپ انتظامیہ کے درمیان نیٹو کے حوالے سے کافی اختلافات تھے تاہم نئے امریکی صدر نے نیٹو کے تئیں اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ ٹرمپ نے نیٹو اتحاد پر یہ کہہ کر بارہا سوال اٹھایا تھا کہ یورپی اتحادی اپنا لازمی حصہ اس پر نہیں خرچ کر رہے ہیں۔
فرانس کے صدر میکروں اور ٹرمپ کے مابین شام کے مسئلے اور ماحولیات سے متعلق پیرس معاہدے پر بھی یکساں موقف ہے۔ جہاں تک پیرس معاہدے کی بات ہے تو اسے بائیڈن نے پہلے ہی روز بحال کردیا تھا اور امریکا اس معاہدے میں دوبارہ شامل ہوگیا ہے۔
دونوں رہنماؤں نے غریب ممالک تک کورونا وائرس کی ویکسین کے لیے بھی عالمی ادارہ صحت(ڈبلیو ایچ او)کے ساتھ مل کر کام کرنے پر زور دیا جبکہ ٹرمپ نے امریکا کو اس سے الگ کر لیا تھا۔
میکروں کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں مزیدکہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان بعض مسائل پر شدید اختلافات ہیں اور اس پر بھی فرانس بات چیت سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔
فرانس نے آمیزون اور گوگل جیسی کمپنیوں پر اضافی ٹیکس نافذ کرنے کا اعلان کیا ہے جس پر دونوں میں شدید اختلافات ہیں۔ طیارہ بنانے والی فرانسیسی کمپنی ایئر بس پر امریکا نے اضافی ٹیکس لگایا تھا جس کے جواب میں یورپی ممالک نے بھی امریکی کمپنی بوئنگ کی یورپی شاخوں پر اضافی ٹیکس نافذ کردیا ہے۔