امریکی الیکشن اور مکافات عمل

American Election

American Election

تحریر : میر افسر امان

اس بار امریکی الیکشن نے ایک نئی تایخ رقم کی ہے۔بلکہ یوں کہا جائے کہ یہ امریکا کے جمہوری منہ پر ریپبلک پارٹی کے ڈونلڈ ٹرمپ نے دہشت گردی کی کالک لگا دی ہے۔وہ ملک جو جمہوریت کا چیمپئین بناہوا تھا۔ملکوں کو جمہوریت کا سبق پڑھایا کرتا تھا۔ اب خود ایک دہشت زدہ ملک بن گیا ہے۔ سارے ملک میں سفید فام اور کالوں میں تقسیم ہو چکا ہے۔ کیپٹل ہلز کو رومن ایمائر کی شان و شوکت کا مظہرقرار دیا گیا تھا وہ اپنی بے بسی پر رو رہا ہے۔ تمام ادارے ٹرمپ کے خلاف ہو گئے۔میڈیا نے انٹرویولینے چھوڑ دیے۔سوشل اکائونٹ بند کر دیے گئے۔ دنیا ٹرمپ سے نفرت کرتی تھی۔ اب اس کی ایک مسخرے سے جان چھوٹ گئی۔ دہشت گردی کی فضا میں واشنگٹن ڈی سی ایک گریژن بنا ۔واشنگٹن کو گرین زون قرار دے دیا گیا ہے۔جیسے ہمارے ہاں ریڈ زون قرار دیتے ہیں۔ ٢٥ ہزارمسلح فوج کے دستے ٹینکوں کے ساتھ اور ٦٠ ہزار سکیورٹی گارڈز نے کیپٹل ہلز سے واشنگٹن ڈی سی کی گلیوں اور پارلیمنٹ کو اپنے حصار میںلیے رکھا ۔ دہشت گردی کے ماحول میںگدھے کے نشان والی ڈیموکریٹک پارٹی کے سفید فام جو بائیڈن نے حلف اُٹھایا۔ کالے رنگ والی کملا ہیرس پہلی خاتون نے نائب صدر کا حلف اُٹھا۔ ١٢٥ سالہ امریکی تاریخ میں پہلی بار ٹرمپ اس صدارتی تقریب میں شریک نہیں ہوا۔ یہ بات بھی سامنے آئی کہ پہلی بار امریکی فوج نے ٹرمپ کے اعزاز میںالوادعی تقریب بھی منعقد نہیںکی۔ حلف برداری کی اس تقرب میں سابق صدر بارک اوباما، جارج بش اور بل کلنٹن نے شرکت کی۔

دیکھنا ہے کہ دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے جوبائیڈن انٹی ٹرینرزم کا بل پاس کریں گے یا اس ٹینشن کو کسی اور طریقہ سے کنٹرول کرنے کی کوشش کریں گے۔ جو بائیڈن نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں سارے امریکوں کا صدر بن کر دکھائوں کا۔اختلافات کو جمہوری طریقے سے حل کرنے کی کوشش کروں گا۔ جمہوریت اسے ہی کہتے ہیں۔ریپبلک پارٹی کے ہاتھی والے نشان والے ٹرمپ کو امریکا میں ذہنی مریض کہا جاتا ہے۔میری ٹرمپ جو کہ رشتے میں ٹرمپ کی بھانجی ہیں، ماہر نفسیات ڈاکٹر ہیں، کہتی ہیں کہ ٹرمپ منشیات کے استعمال کی وجہ سے ذہن مریض بن چکا ہے۔ اس کے علاوہ بھی امریکی ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ ٹرمپ ذہنی مریض ہیں۔ مگر کیا ان کی سیاسی پارٹی، ریپبلک پارٹی کو کوئی اور امیداور نہیں ملا تھا،کہ ٹرمپ جیسے ذہنی مریض کو امریکی صدر کے عہدہ کے لیے پیش کیا تھا۔ جس نے اب کی بار الیکشن ہارنے کو اپنی ہار نہیں مانا۔ کہا کہ الیکشن چوری کیے گئے ہیں۔ کیا امریکا جیسے جمہوری ملک میں ایسا ممکن ہے۔ یقیناً نہیں!آخر برسوں سے امریکا میں لوگ صدر منتخب ہوتے رہے ۔ ٹرمپ کچھ نیا تو نہیں ہے۔ مگرا ایک پاغل شخص نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے امریکا کو ہی دائو پر لگا دیا۔ یہی حرکت ہمارے ملک میں فوج کی حمایت سے تین دفعہ وزیر اعظم بننے والے نواز شریف نے کی۔

تاریخ ٹرمپ اور نواز شریف کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔تارکین وطن جنہوں نے امریکا کی ترقی میں برابر کا حصہ لیا ٹرمپ نے ان کے خلاف قانون بنائے، بلکہ ان کو تنگ کیا۔ مسلمان ملکوں سے آنے والے مسلمانوں پر پابندیاں لگائیں۔فلسطین میں بیت القدس کو اسرائیلی قبضہ اور یوروشلم کو اسرائیل کا دارالخلافہ تسلیم کیا۔عرب ملکوں پر دبائو ڈال کو اسرائیل کو تسلیم کرایا۔ سعودی حکمرانوں کو ایران سے ڈرا کر بلیک میل کیا۔ وار آن ٹیرر کے نام پر مسلمان ملکوںکے فوجی اتحاد بنا کر ٹرمپ خود اس کا سرپرست اور پاکستان کے سابق سپہ سالار کو چیف بنوایا۔ سعودیوں کو اسلام کے خلاف اقدام کرانے پر مجبور کیا۔ سعودی میں نائٹ کلب کھلے۔ سعودی شہزادے کو ایک نیا جدید شہر، جو فحاشی کا اڈا ہو گا، بنانے کی فضول کام پر لگا دیا ۔ اس سے مسلمانوں کے مقدس ملک سعودی کے خلاف کیا۔

اصل بات یہ ہی ہے کہ ٹرمپ نے عوام سے چھوٹے وعدے کر اقتدار حاصل کیا تھا۔ سفید نسل پرستوں کو امریکا کے کالوں کے خلاف اُکسا کراقتدار پر قبضہ کیا تھا۔ امریکا میں نسلی امتیاز پر اقتدار حاصل کیا جو ان اس کے گلے پڑھ کیا ہے۔ ملک بھرمیں کالوں کا جینا مشکل ہو گیا۔ سفید فام پولیس والوں کے مظالم کی ویڈیو ساری دنیا میں دیکھی گئیں۔
مکافات عمل یہ ہے کہ جو کام امریکا ساری دنیا میں کراتا رہا۔ وہ کام امریکا میں بھی شروع ہو گیا ہے۔امریکی سابق وزیر خارجہ ہیری کلنٹن نے اپنی کتاب میں لکھا کہ داعش امریکا نے بنائی ہے۔ داعش نے عراق ،شام اور افغانستان میں مسلمانوں کو ظالمانہ طریقوں سے قتل عام کیا۔ داعش اب بھی افغانستان میں موجود ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کو امریکا نے بنایا۔ اس کا ا عترام امریکی وزیر دفاع نے کیا تھا۔پاکستان میں اسرائیل اور بھارت کو ملا کر پاکستان میں خانہ جنگی برپاہ کی۔امریکی کو مختلف قوموں نے ترقی سے ہمکنار کیا تھا ۔

ٹرمپ کہتا ہی نہیں یہ سب کچھ سفید فام نے کیا۔ جبکہ ٹرمپ نے کالوں ،میکسیکو والوں ،تارکین وطن کا مسئلہ بنا کر الیکشن جیتا تھا۔ امریکی دیگر ملکوں کے حالات پرہنستے تھے اب خود دنیا ان پر ہنس رہے ہیں۔ وہ امریکا جس نے دنیا میں سب پہلی اور آخری دہشت گردی کرتے ہوئے جاپان پر ایٹم بم گرایا تھا۔ امریکا جس نے دنیا پھر جس میں ویٹنام،عراق،لیبیا،شام،عراق،افغانستان اور پاکستان میںشامل ہیں، دہشت پھیلا ئی ،اب خود دہشت کا شکار ہو چکا ہے۔کپیٹل ہلز جو رومن ہمپائر کی شان شوکت کے مظہر کے طور پر تاریخ سے چنا گیا تھا وہ امریکا خود دہشت کا شکار نظر آتا ہے ۔ چھ نومبر امریکا بھر سے ٹرمپ کے د ہشت گرد کیپٹل ہلز واشنگٹن ڈی سی میں امریکی پارلیمنٹ کے دروازے گھڑکیاں توڑ کراندر داخل ہوئے اور دہشت گردی کی۔ موجودہ حالت میںپاکستان کو امریکا سے اپنے تعلوقات کو نئے سرے سے ترتیب دینا چاہیے۔

عمران حکومت نے آتے ہی کہہ دیا تھا کہ اب ہم کرایے کی فوج نہیں بنیں گے۔کسی کی لڑائی نہیں لڑیں گے۔کسی بھی پڑوسی ملک میں میں نہ مداخلت کریں گے نہ کسی کی مداخلت مانیں گے۔ یہ ہی جمہورت کا طریقہ ہے ۔نواز شریف نے بھارت کی ایما پر اپنی ہی ملک کی فوج سے محاذ جنگ کھول رکھا تھا۔ موجودہ حکومت نے اسے ختم کیا۔ فوج اور سیاسی حکومت میں یکساں سوچ ہے ۔ جو دشمنوں کو پسند نہیں۔جس نواز شریف پر کرپشن کے مقدمے ہیں ۔ اسے چاہیے کہ ملک میں آ کر عدالتی کاورائی میں حصہ لے ۔ پی ڈی ایم جو نواز شریف کے کہنے پر فوج اور عدلیہ کے خلاف عوام کو اکسا رہی ہی ہے، اس کے غبارے سے بھی ہوا نکل گئی ہے۔ہر عروج کا زوال ہے۔امریکا جس نے ساری دنیا میں آگ لگائی ہوئی تھی۔ مکافات عمل کے مطابق اب خود آگ میں جلنا شروع ہو گیا ہے۔ امریکا کا زوال اب رک نہیں سکتا۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان