استنبول (اصل میڈیا ڈیسک) دونوں پڑوسی ملکوں میں بحیرہ روم کے پانیوں پر دعوے اور توانائی کے حقوق سمیت مختلف تصفیہ طلب امور کے حوالے سے تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ جرمنی نے مذاکرات کے آغاز کو ایک مثبت پہل قرار دیا ہے۔
ترکی اور یونان نے تقریباً پانچ برس کے بعد مشرقی بحیرہ روم میں کشیدگی اور دیگر اختلافات کے حوالے سے براہ راست بات چیت کی ہے۔ دونوں پڑوسیوں اور نیٹو کے رکن ممالک کے مابین پیر 25 جنوری کو استنبول میں ہونے والی یہ 61ویں مرحلے کی بات چیت تھی۔
گزشتہ چند برسوں کے دوران ترکی اور یونان کے رشتے کشیدگی کا شکار رہے ہیں اور اس تناظر میں ان مذاکرات سے دونوں کے درمیان جمود ٹوٹنے کے توقعات ظاہر کی گئی ہیں۔ بات چیت کو حل تلاش کرنے کی جانب ایک ہم قدم سے تعبیر کیا گیا ہے اور امکان ہے کہ اس کے بعد فریقین کے درمیان مزید ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگا۔
امریکا نے اس بات چیت کی بحالی کا خیر مقدم کیا ہے جبکہ جرمنی نے اسے مثبت قرار دیتے ہوئے کہا، ”ہم کافی عرصے سے اس کے منتظر تھے۔”
انقرہ اور ایتھنز کے درمیان گزشتہ برس کشیدگی میں اضافہ اس وقت ہوا جب ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اعلان کیا کہ انہوں نے، ”یورپ کے لیے دروازے کھول دیے ہیں۔” اس سے پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد ترکی اور یونان کی سرحد کی جانب بڑھنے لگی تھی۔
دونوں ملکوں میں مشرقی بحیرہ روم میں پائے جانے والے توانائی کے ذخائر اور سمندری حدود کے حوالے سے بھی شدید اختلافات ہیں۔ دونوں ہی ملک مشرقی بحیرہ روم کے ایک حصے پر قدرتی گیسوں جیسے وسائل کی دریافت کے لیے کھدائی کے حق کا دعوی کرتے ہیں۔
گزشتہ برس موسم گرما میں ترکی نے متنازعہ سمندری پانیوں میں گیس کی دریافت کے لیے اپنا بحری بیڑا بھیج دیا تھا اس پر یورپی یونین کے بعض اتحادی ممالک نے یونان کے دعوے کی حمایت میں متنازعہ خطے میں اپنے جہاز روانہ کیے تھے۔ کشیدگی اتنی بڑھ گئی تھی کہ ترکی اور یونان نے اس سمندری خطے میں بحری جہاز اور جنگی طیاروں کی مشقیں تک شروع کر دی تھیں۔
اس تنازعے کے تناظر میں یورپی یونین نے ترکی پر پابندیاں عائد کرنے دھمکی دی تھی۔ لیکن پیر کے روز جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے یورپی یونین کے اپنے دیگر 26 ارکین کے ساتھ ایک ورچوؤل میٹنگ کے بعد کہا کہ فی الوقت یورپی یونین نے ان پابندیوں کے نفاذ کو روک دیا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے گزشتہ ہفتے ترکی کا دورہ بھی کیا تھا۔
اس حوالے سے ایک بیان میں ہائیکو ماس نے کہا، ”ہم نے ترکی پر پابندی عائد کرنے سے متعلق آج کوئی فیصلہ نہیں کیا کیونکہ ہم نے کچھ مثبت پیش رفت دیکھی ہے۔ مشرقی بحیرہ روم کے متنازعہ علاقے میں اس وقت ترکی کا کوئی جہاز نہیں ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مسئلے کے حل کے لیے ترکی اور یونان کے درمیان، ”آج شام بات چیت کا آغاز ہوا ہے۔ یہ وہ تمام مثبت اشارے ہیں جس کا ہمیں کافی عرصے سے انتظار تھا، جنہیں اب پابندیوں کے ذریعے مزید خراب نہیں کرنا چاہیے۔”
ترکی میں اکنامک ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن سے وابستہ عالمی امور کے ماہر پروفیسر سڈمین ناس نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات چیت نہ صرف ترکی اور یونان کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لیے اہم ہے بلکہ ترکی اور یورپی یونین کے درمیان رشتوں میں بھی اس کا کلیدی کردار رہیگا۔