امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) سینیٹ میں پانچ کو چھوڑ کر تمام ریپبلکن سینیٹرز نے ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کو مسترد کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ سابق صدر کو ”بغاوت پر اکسانے” کے لیے قصوروار قرار دینا تقریباً نا ممکن ہے۔
امریکی سینیٹ میں منگل کے روز سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی کارروائی کو روکنے کے لیے جو قرارداد پیش کی گئی وہ ناکام ہوگئی۔ پچاس میں سے 45 ریپبلکن اراکین نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریپبلیکنز کی اکثریت نہ صرف مواخذے کے خلاف ہے بلکہ سابق صدر کا پارٹی پر اب بھی اچھا خاصا کنٹرول ہے۔
اس ووٹنگ سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ چھ جنوری کو کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے کے لیے ٹرمپ کو ”بغاوت پر اکسانے” کے لیے قصوروار ٹھہرانے کا امکان بھی بہت کم ہے کیونکہ سینیٹ میں اس کے لیے جتنی اکثریت چاہیے وہ دستیاب نہیں ہے۔
ریپبلکن سینیٹر رینڈ پال نے سینیٹ میں ایک قرارداد پیش کی جس میں اس بات کے لیے ووٹ سے فیصلہ ہونا تھا کہ فروری میں صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی جو کارروائی ہونی ہے وہ آئینی طور پر درست ہے یا نہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی قیادت میں اس قرارداد کو 45 کے مقابلے 55 ووٹوں سے مسترد کر دیا گیا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ سینیٹ میں ٹرمپ کے خلاف 8 فروری سے مواخذے کی جو کارروائی ہونی ہے وہ اپنے مقررہ وقت کے مطابق ہوگی لیکن ریپبلکنز کی بڑی تعداد اس کی مخالفت کریگی۔ کیپیٹل ہل پر حملہ، جس میں ایک پولیس اہلکار سمیت پانچ افراد ہلاک ہوئے تھے، کے لیے 13 جنوری کو ایوان نمائندگان میں ٹرمپ کا مواخذہ پہلے ہی کیا جا چکا ہے۔
سینیٹ میں ٹرمپ کے مواخذے کو روکنے کے لیے رینڈ پال کی قرارداد کی مخالفت میں صرف پانچ ریپبلیکنز ہی ڈیموکریٹ کے ساتھ آئے جبکہ ٹرمپ پر جو الزامات ہیں اس کے لیے انہیں قصوروار ٹھہرانے کے لیے 17 مزید ریپبلکن ارکان کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔
پولیس کے مطابق پارلیمانی عمارت میں بدامنی کے دوران چار افراد مارے گئے۔ ان میں سے ایک شخص گولی لگنے سے ہلاک ہوا۔ باقی تین افراد کی موت کی وجہ میڈیکل ایمرجنسی بتائی گئی ہے۔
اس ووٹ کے بعد رینڈ پال نے صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ”واشنگٹن میں ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ جب شکست حقیقت میں جیت ہوتی ہو۔ 45 ووٹ کا مطلب یہ ہوا کہ مواخذے کی کارروائی کے آغاز میں اس کی موت ہو جائے گی۔”
پال اور ان کے دیگر ریپبلیکنز ساتھیوں کا موقف ہے کہ چونکہ ٹرمپ عہدہ صدارت سے سبکدوش ہوچکے ہیں اور مواخذے کی کارروائی امریکی چیف جسٹس جان رابرٹ کے بجائے ڈیموکریٹک پیٹرک لیہی کی صدارت میں ہوگی اس لیے یہ غیر آئینی ہے۔
پال کی قرارداد کی حمایت کرنے والے بعض ریپبلیکنز کا یہ بھی کہنا تھا کہ ان کا یہ ووٹ اس بات کا قطعی عکاس نہیں کہ ٹرمپ کے خلاف کارروائی کے بعد وہ ان کی غلطی یا بے گناہی سے متعلق بھی اسی طرح ووٹ کریں گے۔ ریپبلکن سینیٹر راب پورٹ مین کا کہنا تھا، ”جہاں تک میرا سوال ہے تو یہ بالکل الگ معاملہ ہے۔”
امریکی دانشوروں میں بھی اس بات کے حوالے سے اختلافات پائے جاتے ہیں کہ جب صدر اپنے عہدے سے سبکدوش ہوجائے تو پھر اس کا مواخذہ کرنا درست ہے یا نہیں۔ سینیٹ میں ریپبلکن رہنما چک شومر نے بھی رینڈ پال کی قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔
ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے ریپبلکن کا موقف اس لیے غلط ہے کہ اس سے غلطی کرنے والے صدر کو یونہی بغیر کسی سزا کے آزاد چھوڑ دینے کی غلط روایت پڑ جانے کا خدشہ ہے۔