ریاض (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں زور دار دھماکہ ہوا تاہم فوری طورپر اس کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ سعودی حکام نے فی الحال اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور نا ہی کسی نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں متعدد عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے منگل کے روز مقامی وقت کے مطابق ایک بجے سے ذرا پہلے دو زوردار دھماکوں کی آوازیں سنیں۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ویڈیوز میں ریاض کے اوپر مبینہ طورپر ایک میزائل کو تباہ کرتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
عینی شاہدین نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کوبتایا کہ انہوں نے دھماکوں کی دو آوازیں سنیں اور فضا میں دھوئیں کے سیاہ بادل اٹھتے دیکھے۔
دھماکوں کی وجہ فوری طورپر معلوم نہیں ہوسکی ہے تاہم سعودی عرب کے سرکاری چینل العربیہ ٹی وی نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ویڈیوز کے حوالے سے کہا ہے کہ شہر کے اوپر ایک میزائل کو تباہ کر دیا گیا۔
خالد اسماعیل اپنی بیٹی رضیہ کا دایاں ہاتھ چوم رہے ہیں۔ سترہ سالہ کینسر کی مریضہ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ اپنی جمع پونجی بیچنے اور ادھار لینے کے باجود خالد اس سے بہتر علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ’’جنگ نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ہم بیرون ملک نہیں جا سکتے اور میری بیٹی کا مناسب علاج بھی نہیں ہوا۔‘‘
اس سے قبل سنیچر کے روز ریاض کو نشانہ بنا کرایک میزائل داغا گیا تھا۔
ہفتے کے روز یمن میں سعودی عرب کی قیادت والے فوجی اتحاد نے کہا تھا کہ ریاض کی جانب بڑھنے والے ایک میزائل کو فضا میں ہی تباہ کردیا گیا۔
فوجی اتحاد کی جانب سے جاری کردہ مختصر بیان میں تباہ ہونے والے ہدف کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا جبکہ حوثی باغیوں نے کہا تھا کہ وہ حملے میں ملوث نہیں ہیں۔ البتہ ایک نامعلوم گروپ علویہ الوعد الحق نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
سعودی عرب نے سن 2015 میں حوثیوں کے ذریعہ برطرف کردی جانے والی حکومت کو بحال کر نے کے لیے یمن میں فوجی مداخلت کی تھی جس کے بعد سے ہی ایرانی حمایت یافتہ حوثیو ں نے سرحد پار سے ڈرون اور میزائل حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں وہ سعودی عرب کی تیل تنصیات اور سویلین ڈھانچوں کے نشانہ بناتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ سعودی اتحاد حوثیوں کے خلاف یمن کی عالمی سطح پر تسلیم کی جانے والی حکومت کی حمایت کرتا ہے۔
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں دھماکے
Posted on January 27, 2021 By Majid Khan اہم ترین, بین الاقوامی خبریں
Shortlink:
Saudi Arabia
ریاض (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں زور دار دھماکہ ہوا تاہم فوری طورپر اس کی وجہ معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ سعودی حکام نے فی الحال اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور نا ہی کسی نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں متعدد عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ انہوں نے منگل کے روز مقامی وقت کے مطابق ایک بجے سے ذرا پہلے دو زوردار دھماکوں کی آوازیں سنیں۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ویڈیوز میں ریاض کے اوپر مبینہ طورپر ایک میزائل کو تباہ کرتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
عینی شاہدین نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کوبتایا کہ انہوں نے دھماکوں کی دو آوازیں سنیں اور فضا میں دھوئیں کے سیاہ بادل اٹھتے دیکھے۔
دھماکوں کی وجہ فوری طورپر معلوم نہیں ہوسکی ہے تاہم سعودی عرب کے سرکاری چینل العربیہ ٹی وی نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ویڈیوز کے حوالے سے کہا ہے کہ شہر کے اوپر ایک میزائل کو تباہ کر دیا گیا۔
خالد اسماعیل اپنی بیٹی رضیہ کا دایاں ہاتھ چوم رہے ہیں۔ سترہ سالہ کینسر کی مریضہ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ اپنی جمع پونجی بیچنے اور ادھار لینے کے باجود خالد اس سے بہتر علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ’’جنگ نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ہم بیرون ملک نہیں جا سکتے اور میری بیٹی کا مناسب علاج بھی نہیں ہوا۔‘‘
اس سے قبل سنیچر کے روز ریاض کو نشانہ بنا کرایک میزائل داغا گیا تھا۔
ہفتے کے روز یمن میں سعودی عرب کی قیادت والے فوجی اتحاد نے کہا تھا کہ ریاض کی جانب بڑھنے والے ایک میزائل کو فضا میں ہی تباہ کردیا گیا۔
فوجی اتحاد کی جانب سے جاری کردہ مختصر بیان میں تباہ ہونے والے ہدف کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا جبکہ حوثی باغیوں نے کہا تھا کہ وہ حملے میں ملوث نہیں ہیں۔ البتہ ایک نامعلوم گروپ علویہ الوعد الحق نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
سعودی عرب نے سن 2015 میں حوثیوں کے ذریعہ برطرف کردی جانے والی حکومت کو بحال کر نے کے لیے یمن میں فوجی مداخلت کی تھی جس کے بعد سے ہی ایرانی حمایت یافتہ حوثیو ں نے سرحد پار سے ڈرون اور میزائل حملوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس میں وہ سعودی عرب کی تیل تنصیات اور سویلین ڈھانچوں کے نشانہ بناتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ سعودی اتحاد حوثیوں کے خلاف یمن کی عالمی سطح پر تسلیم کی جانے والی حکومت کی حمایت کرتا ہے۔
by Majid Khan
Nasir Mehmood - Chief Editor at GeoURDU.com