بھارت (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے حکومت کی جانب سے متعارف کروائے گئے نئے زرعی قوانین کے خلاف مظاہرے کرنے والے کسانوں پر سخت برہمی ظاہر کی ہے۔
منگل 26 جنوری کو بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر یہ مظاہرے اس وقت پرتشدد رنگ اختیار کر گئے تھے، جب کسان بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کے مرکز میں تاریخی لال قلعے میں داخل ہو گئے تھے اور وہاں اپنا پرچم نصب کر دیا تھا۔ یہاں کسانوں اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں دیکھنے میں آئیں۔
اتوار 31 جنوری کو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ریڈیو پر اپنے خطاب میں یوم جمہوریہ کے موقع پر لال قلعے پر کسانوں کے دھاوے کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ ہزاروں کسان بھارتی دارالحکومت نئے دہلی کے نواح میں گزشتہ دو ماہ سے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔ ان کسانوں کا مطالبہ ہے کہ حکومت حکومت زرعی قوانین واپس لے۔ کسانوں کے مطابق ان قوانین کے ذریعے پرائیویٹ کارپوریشنز کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔
مودی نے کسانوں کے احتجاج کے آغاز کے بعد سے اس مدعے پر اپنے پہلے بیان میں کہا، ”بھارت 26 جنوری کو دہلی میں ترنگے (بھارتی پرچم) کی توہین پر مغموم ہے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ”حکومت کا عزم ہے کہ وہ ملک میں زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرے اور اس سمت میں کئی قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔‘‘
کسانوں کی جانب سے ٹریکٹروں کے ساتھ لال قلعے پر دھاوا بولنے کے موقع پر پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں میں ایک شخص ہلاک جب کہ سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد اس اب تک مظاہرین، حکام اور کسان مخالف گروپوں کے درمیان تند و تیز حملوں کو تبادلہ دیکھا گیا ہے۔ کسان تنظیموں کا کہنا ہے کہ وہ مظاہرین میں موجود ایک اقلیت کی جانب سے تشدد کے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کرتیں۔
ییہ بات اہم ہے کہ گزشتہ برس ستمبر میں بھارت میں متنازعہ زرعی قوانین منظور کیے گئے تھے۔ ان نئے قوانین کے تحت زرعی شعبے میں متعدد روایتی جہتوں کا خاتمہ کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان قوانین کے تحت کسانوں کو یہ آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنی فصلیں روایتی مارکیٹ سے باہر بھی فروخت کر سکتے ہیں اور وہ یوں براہ راست گاہک تلاش کر سکتے ہیں۔ ان قوانین کے تحت حکومت کو فصلوں کی طے شدہ کم از کم قیمت پر لازمی خریداری سے آزادی مل جائے گی۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کا کہنا ہے کہ ان قوانین کے ذریعے کسانوں کی آمدن اگلے برس میں دوگنا ہو جائے گی۔ تاہم کسانوں کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ قانون کم از کم معاونتی قیمت کی کوئی ضمانت نہیں دیتا ہے اور کسانوں کو بڑی بڑی کمپنیوں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے مترادف ہے۔