صومالیہ (اصل میڈیا ڈیسک) صومالی سکیورٹی فورسز نے موغادیشو میں ایک ہوٹل پر حملہ کرنے والوں الشباب کے انتہا پسندوں پر قابو پا لیا ہے۔ اس کارروائی میں کم از کم نو افراد ہلاک ہو گئے۔
شدت پسند تنظیم الشباب نے صومالی دارالحکومت موغادیشو میں ایک ہوٹل پر اتوار کے روز حملہ کردیا۔ پولیس نے حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کرکے ہوٹل کو آزاد کرا لیا ہے تاہم اس کارروائی کے دوران کم از کم نو افراد مارے گئے۔
پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا”کارروائی مکمل ہوچکی ہے۔ چار حملہ آوروں سمیت نو افراد ہلاک ہوئے ہیں اور دس سے زیادہ شہری زخمی ہوئے ہیں۔ وہاں کوئی بجلی نہیں ہے۔”
وزیر اعظم محمد حسین روبلے نے ایک بیان میں کہا کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک سابق فوجی جنرل محمد نور گلال شامل تھے۔
انہوں نے کہا”میں اس بہیمانہ حملے کی مذمت کرتاہوں۔ جو لوگ ہلاک ہوئے ہیں اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔ جنرل محمد نور گلال ملک کی دفاع میں اپنے پچاس برس سے زیادہ عرصے تک خدمات کے لیے ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔”
قبل ازیں ایک خود کش کار بمبار نے اپنی کار موغادیشو میں ہوٹل افریک کے داخلی دروازے سے ٹکرادی تھی۔ اس کے بعد متعدد مسلح بندوق بردار بڑی تیزی سے ہوٹل میں داخل ہوگئے اور ہوٹل کے عملے اور وہاں موجود دیگر افراد پر اندھا دھند گولیاں چلانی شروع کردیں۔
پولیس کے ترجمان صادق عدنان نے بتایا کہ الشباب کے حملے کے بعد انتہاپسندوں اور سکیورٹی فورسز کے درمیان فائرنگ ہوئی۔ پولیس نے کئی لوگوں کو ہوٹل سے محفوظ نکال لیا۔ ان میں ہوٹل کے مالک شامل ہیں۔
شدت پسند اسلامی گروپ الشہاب نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ القائدہ سے تعلق رکھنے والی اس تنظیم نے اندلس ریڈیو اسٹیشن
سے ایک اعلان میں اس حملے کی ذمہ داری لی ہے۔
الشہاب، اسلامی شرعی قوانین کے مطابق قرن افریقہ پر حکومت کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک عرصے سے صومالی حکومت کے ساتھ محاذ آرا ہے اور اکثر بم دھماکے کرتا رہتا ہے۔
پولیس کے ترجمان صادق عدنان نے کہا ”ہمیں معلوم ہے کہ انہوں (الشہاب) نے اپنے طریقہ کار میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے، دھماکہ خیز مادوں سے لدی ہوئی گاڑی کو کسی عمارت سے ٹکرا دینا اور اس کے بعد رائفلوں کے ساتھ فائرنگ شروع کر دینا۔”
عینی شاہدین نے خبر رساں روئٹرز کو بتایا کہ انہوں نے ایک رسی کے سہارے دیوار کود کر اپنی جان بچائی۔
انہوں نے بتایا ”ہم ہوٹل میں بیٹھ کر باتیں کر رہے تھے کہ اچانک زوردار دھماکہ ہوا اور پورا ہوٹل لرز کر رہ گیا۔ ہم گھبر اگئے۔ گھبراہٹ میں میں نیچے کود گیا اور دوڑ پڑا۔ مجھے نہیں معلوم وہاں کیا ہوا۔ میں انتہائی خوف زدہ ہوں۔ میں نے گولیاں چلنے کی آوازیں سنیں اور دھواں پھیلتے ہوئے دیکھا۔”