کوسوو (اصل میڈیا ڈیسک) مسلم اکثریتی ننھے یورپی ملک کوسوو نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کا اعلان کیا ہے اور ساتھ ہی مقبوضہ بیت المقدس کو صہیونی ریاست کا دارالحکومت بھی تسلیم کر لیا ہے۔
مقبوضہ بیت المقدس اور پریسٹینا میں زُوم ایپ کے ذریعے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات استوار کرنے کے لیے معاہدے پر دست خط کی تقریب منعقد ہوئی ہے۔ اسرائیلی وزیرخارجہ گابی اشکنازی اور کوسوو کی وزیرخارجہ ملیزا حرادیناج اسٹیبلا نے مشترکہ اعلامیے پر بیک وقت اپنے اپنے دفتر سے دست خط کیے ہیں۔
اس موقع پر گابی اشکنازی نے کہا کہ ’’انھوں نے کوسوو کی یروشلیم میں سفارت خانہ کھولنے کی باضابطہ درخواست کی منظوری دے دی ہے۔‘‘
اسرائیل نے گذشتہ سال سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کے نتیجے میں چارعرب ممالک متحدہ عرب امارات ، بحرین ، مراکش ، اور سوڈان کے ساتھ امن معاہدے طے کیے تھے اور ان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔کوسوو کے ساتھ سفارتی تعلقات کا قیام بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
ان تمام امن معاہدوں کو مجموعی طور پر ابراہیم معاہدوں کا نام دیا گیا ہے۔بیشتر مسلم اکثریتی ممالک نے اسرائیل سے ان معاہدوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ان ممالک کا یہ مؤقف ہے کہ فلسطینی تنازع کے حل تک کسی اسلامی ملک کو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار نہیں کرنے چاہییں۔
تاہم معاہدۂ ابراہیم کے فریق عرب ممالک کا کہنا ہے کہ وہ مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم نہیں کرتے ہیں اور وہ تل ابیب ہی میں اپنے سفارت خانے قائم کریں گے۔
واضح رہے کہ گذشتہ سال ستمبر میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کوسوو اور اس کے سابق جنگی حریف ملک سربیا کے درمیان بھی امن معاہدہ طے کرایا تھا۔اس موقع پر انھوں نے یہ اعلان کیا تھا کہ کوسوو اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرلے گا۔
لیکن تب سب سے حیران کن اعلان کوسوو کی جانب سے کیا گیا تھا۔اس نے کہا تھا کہ وہ اسرائیل اور سربیا کو تسلیم کرلے گا اور امریکا کی پیروی کرتے ہوئے اپنا سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس میں منتقل کردے گا۔تاہم اب تک اس معاہدے کے ضمن میں سربیا نے اپنے وعدے کی پاسداری نہیں کی ہے اور اس کے بعض عہدے داروں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ معاہدہ غیرپابند نوعیت کا تھا۔
کوسوو نے تب یہ بھی کہا تھا کہ اگر اسرائیل اس کو ایک آزاد ریاست تسلیم کرلے تو وہ یروشلیم میں اپنا سفارتی مشن قائم کرنے کو تیار ہے۔کوسوو نے 2008ء میں سربیا سے اعلانِ آزادی کیا تھا۔دنیا کے بعض ممالک نے ابھی تک اس کی آزاد حیثیت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔