واشنگٹن (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا کے صدر جو بائیڈن نے میانمار میں مارشل لا کی مذمت کرتے ہوئے پابندیاں عائد کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق پیر کو صدر بائیڈن کے جاری کیے گئے بیان میں میانمارمیں آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کے خاتمے اور فوج بغاوت کو ملک میں جمہوریت اور قانون و انصاف پر براہ راست حملہ قرار دیا گیا ہے۔
صدر بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا کہ عالمی برادری کو مل کر برما کی فوج پر اقتدار واپس منتخب نمائندوں کو منتقل کرنے، سیاسی قیدیوں اور سول حکام کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔ بیان میں برمی فوج پر ٹیلی کمیونیکیشن ذرائع پر عائد کی گئی پابندیاں اور شہریوں کے خلاف پُرتشدد کارروائیاں ختم کرنے کے لیے بھی زور دیا ہے۔
عالمی مبصرین کا کہنا ہے کہ برما میں فوجی بغاوت سے بائیڈن حکومت کو ایشیا پیسیفک میں چین کے خلاف اپنی پالیسی آگے بڑھانے میں درپیش مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ علاوہ ازیں ڈیموکریٹ صدر اوباما کے دور میں برما میں جمہوریت کی بحالی ممکن ہوئی جسے اوباما کی خارجہ پالیسی کی بڑی کامیابیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس دور میں جوبائیڈن امریکا کے نائب صدر تھے اور موجود حالات میں اب وہ منصب صدارت پر فائز ہیں۔ اس حوالے سے برما کی صورت حال ان کے لیے بڑا چیلنج قرار دیا جارہی ہے۔
برما میں مارشل لا لگنے کے بعد دنیا کو جو بائیڈن حکومت کی جانب سے ردعمل کا انتظار تھا جب کہ دوسری جانب خارجہ پالیسی سے متعلق طویل مشاورت کے بعد بالآخر بائیڈن حکومت نے اس معاملے پر اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے۔