دھیر ے دھیرے اب وہ مقام آ گیا

PDM

PDM

تحریر : مسز جمشید خاکوانی

کم و بیش دو ماہ ہو گئے مجھے کالم لکھے ہوئے اسی دوران گیارہ جماعتوں کی ٹیم بنی ” پی ڈی ایم ” کے نام سے لیکن اتنا اچھلنے کودنے کے باوجود کھلاڑی نے ایک ہی بال سے سب کو کلین بولڈ کر دیا اب تو پی ڈی ایم کا تیجا یعنی قل بھی ہو چکے مگر چیخیں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں گو اب یہ کریہہ آوازیں اسمبلی کے اندر گونج رہی ہیں مریم نواز اور مریم اورنگ زیب جب چبا چبا کرجسم کا پورا زور لگا کر ” نا اہل و نا لائق حکومت” کہتی ہیں تو ہنسی آتی ہے بی بی ابھی تو یہ نا اہل ہے اہل ہوتی تو کیا ہوتا ؟اس سوال کا جواب تمھارے کسی ہمدرد کے پاس نہیں ۔سوچنا ضرور ویسے بھی ہمارے ہاں سیاست کی اوقات کیا ہے ؟لوگوں کی بے حسی کے مناظرہیں چار سُو گر ہو سکے تو چشم ندامت اٹھائیے۔۔

ایک جگہ سیاست دان بننے کا نسخہ نظر آیا بعین یہی سیاست پاکستان میں رائج ہے ۔تھانیدار سے واقفیت، تحصیلدار سے علیک سلیک ،چند پٹواریوں سے تعلقات ،لوکل گورنمنٹ سے سکیم لینا اور بعد میں بنا کام کیئے پیسے کھا لینا ،نماز جنازہ میں شرکت اور بعد میں ایک دو بار تعزیت کے لیے جانا ،بارات کے ساتھ جانا ، مختلف محکمہ جات کے اہلکاران کے فون نمبرز اپنے پاس رکھنا ،دو بندوں کے درمیان زمین کا یا کوئی اور تنازعہ پیدا کرنا دونوں طرف سے پولیس ، محکمہ مال اور عدالتی اخراجات کے نام پر پیسے کھانا اور جب وہ مالی طور پر تھوڑے کمزور ہو جائیں تو خانکی فیصلہ کے نام پر پانچ سات جرگے رکھ کر دعوتیں اڑانا (مسلہ جوں کا توں ہی رہتا ہے ) لوکل گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھ کر بازار جانا ،خالصے اپنے نام کرانا ، ہر الیکشن میں مضبوط امیدوار کی پارٹی میں شامل ہونے کا اصولی فیصلہ کرنا اور انتخابی دفتر میں دو تین ماہ تک مفت کی روٹیاں کھانا ، لوگوں کو کنبہ ،قبیلہ ،اور برادری کی بنیاد پر لڑانا ،الیکشن کے بعد اپنے عزیزوں کی نوکریاں لگوانا ،کالی کوٹی پہننا ۔۔۔اب میں کسی کالی کوٹی والے کو دیکھتی ہوں میری ہنسی نکل جاتی ہے اگر آپ کو اپنے ارد گرد کوئی ایسا کردار نظر آئے تو سمجھ لیں سیاسی لیڈر جنم لے رہا ہے۔

یعنی کالے کوٹوں کے ساتھ ساتھ اب کالی کوٹی بھی بدنام اب سوچنے کی بات ہے اس کاروبار سے کتنے لوگوں کو روزگار ملتا ہے لیکن معاف کیجئے اس کو آپ کاروبار نہیں دھندہ کہہ سکتے ہیں وہ بھی گندہ اس میں حلال رزق کمانے کا کوئی چانس نہیں بلکہ غنڈہ گردی اور بدمعاشی کی بولی لگتی ہے جو جتنے زیادہ بدمعاش اکھٹے کر لے اس دھندے میں جتنا مال بنا لے وہ افضل ترین ہے افضل کھوکھر بھی ایسا ہی ایک سیاسی مہرہ ہے جو پہلی بار اپنی ” ساکھ ” لٹنے پر غم و غصے سے اسمبلی میں تھر تھر کانپ رہا تھا یہ وہ لوگ ہیں جو ہماری سیاست کا مکروہ چہرہ ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے تبدیلی آ نہیں سکتی کیونکہ تحصیلوں سے لے کر اضلاع تک اور پھر ڈویژن سے لے کر صوبوں تک یہی قبضہ گروپوں کا نیٹ ورک ہے جو خاص طور پر سندھ اور پنجاب پر قابض ہے کیونکہ جو لوگ آپکی طاقت ہیں جن کے سہارے آپ چل رہے ہیں آپ ان کو گرا کیسے سکتے ہیں ؟جو حکومت کے لیے اس طرح کے کام کریں گے حکومت ان کو بدلے میں سرکاری زمینوں پر تصرف کا پورا حق دے گی اب چاہے وہ محل ماڑیاں بنائیں پلازے بنائیں مارکیٹیں بنائیں بیوائوں ،یتیموں کی زمینوں پر قبضہ کریں کون ان کو پوچھے گا ؟ اب ان پر ہاتھ ڈلا ہے تو بلیک میلنگ عروج پر ہے۔

لہذا تبدیلی گئی تیل لینے اور بدنامی آئی موجودہ حکومت کے حصے میں ،ریاست مدینہ ایک طعنہ بن گئی تھی بدی کے حوصلے بڑھ رہے تھے لب و لہجے میں فرعونیت آتی جا رہی تھی ہم جیسے لوگ ایک بے بسی محسوس کرنے لگے تھے لیکن ڈٹے ہوئے تھے کیونکہ ہمارا بھروسہ تو اللہ پر تھا اب جا کے امید بندھی ہے کہ ہاں اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں ،آج وزیر اعظم نے عام لوگوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے یہی کہا کہ کبھی بھی لوگوں کے خوف سے اپنا خواب نہ چھوڑنا اگر آپ نے اچھا راستہ چنا ہے تو اس پر چلنے کا حوصلہ بھی رکھیں لوگ آپ کو ڈرائیں گے مگر آپ نے ڈرنا نہیں ہے تب جا کر ریاست مدینہ بنے گی یہ کوئی سوئچ آن آف نہیں ہوتا۔

اس سلسلے میں بہت سارے عملی اقدامات کیے گئے مگر کسی نے تعاون نہیں کیا جب ہم خود کو بدلنا نہیں چاہتے تو فوج آ جائے یا عمران ،صدارتی نظام ہو یا شریعت کوئی مائی کا لعل ہمیں بدل نہیں سکتا یہ الفاظ تھے سابق ایف بی آر چیئر مین شبر زیدی کے ،انہوں نے کہا میں سات انڈسٹریز پر ٹریک اینڈ ٹریس لگانے کی کوشش میں تھا جیسے سیمنٹ ،سگریٹ وغیرہ لیکن ہم ناکام ہو گئے سگریٹ پر لگایا تو عدالت سے سٹے آرڈر آ گیا دوسری میری کوشش تھی ایف بی آر کو بینکنگ ڈیٹا تک رسائی ہو پاکستان میں بزنس اکائونٹ چار کروڑ ہیں لیکن ٹیکس میں ایک کروڑ ڈیکلیئر ہیں بجلی کے ساڑھے تین لاکھ انڈسٹیرئیل کنکشن ہیں لیکن لیکن سیلز ٹیکس میں چالیس ہزار رجسٹر ہیں زراعت، میں آڑھتی اتنا پاور فل ہے جس کی مرضی و ہ قیمت بڑھائے یا کم کرے مہنگائی کی اصل وجہ صرف آڑھتی ہے وہ اتنا طاقتور اس لیے ہے کہ کرپشن کا پیسہ اس کی پارکنگ لاٹ ہے۔

میری آڑھتیوں سے میٹنگ بھی ہوئی مجھے کہا گیا آپ کے بس کا روگ نہیں ،گوشت بیف کی اتنی بڑی ٹریڈ ہے ایک گوشت والا مجھ سے زیادہ پیسہ کما رہا ہے لیکن سرکار کو ایک پیسہ نہیں جاتا (یہاں پر میں داد دونگی سابق خادم اعلی اور انکے فرزندان کو جو ان کو کہتے تھے اتنا پیسہ ہمیں پہنچا دیا کرو باقی پیدا گیری کرنا تمھارا کام ہے )پولٹری سے ٹوٹل انکم ٹیکس پورے پاکستان سے تیس چالیس کروڑ سے زیادہ نہیں اس پر کنٹرول کس کا ہے وہ بھی پورا پاکستان جانتا ہے پاکستان میں سلک کی ایک بھی مل نہیں چل رہی نہ ہی پاکستان سلک امپورٹ کر رہا ہے تو اندازہ لگائیں پاکستان میں سلک کا کپڑا کہان سے آ رہا ہے ؟سارا کچھ یہاں سمگلنگ سے چل رہا ہے۔

شبر زیدی کہتے ہیں کراچی چیمبر میں سراج تیلی کو کہا تھا کہ ٹیکس سے متعلق ساری مشکلات دور کر دونگا لیکن شرط یہ ہے کہ کل سے آپ کراچی میں سمگل گڈز نہیں بیچیں گے لیکن انہوں نے انکار کر دیا یہ ہمارے رویے ہیں
انڈر انوائسنگ تقریبا آٹھ ارب ڈالر کے قریب تھی جسے کم کر کے تین ارب ڈالر کے پاس لایا گیا ہے عمران خان کی حکومت کو اگر کوئی کریڈٹ جاتا ہے تو وہ وہ یہ ہے اس وجہ سے امپورٹر مجھ سے بہت ناراض ہوئے میں نے کسٹم کلیرنس پرائس کو ریٹیل پرائس کر دیا۔

مجھے بزنس کمیونٹی کی طرف سے بہت زیادہ دبائو کا سامنا کرنا پڑا کوئی ایک فیصد بھی ڈاکومینٹیشن کے لیے تیار نہیں ہے وہ کوشش کرتے ہیں جس میں ڈاکو مینٹیشن نہیں ہو جہانگیر ترین کے علاوہ کسی سیاستدان کی کمپنی لیمیٹڈ نہیں ہے میں خبر دے رہا ہوں فرٹیلائز ڈاکو مینٹڈ ہے لیکن کوئی ڈیلر رجسٹرڈ نہیں ہے شوگر کا کوئی ڈسٹری بیوٹر رجسٹرڈ نہیں ہے بکاروبار کا یہاں جو سلسلہ ہے اس کا منبہ نواز شریف ہے اس کی پالیسی دیکھ لیں انکے گروپ میں کوئی کمپنی لیمٹڈ نہیں ہے۔

Mrs Khakwani

Mrs Khakwani

تحریر : مسز جمشید خاکوانی