ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران نے 2015ء میں طے شدہ جوہری سمجھوتے کی خلاف ورزیوں کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے اور اس نے اپنے ایک زیرزمین پلانٹ میں جدید سینٹری فیوجز مشینوں پر زیادہ بڑے پیمانے پر یورینیم کو افزودہ کرنا شروع کردیا ہے۔
اس بات کا انکشاف ویانا میں قائم جوہری توانائی کے عالمی ادارے (آئی اے ای اے) نے اپنی نئی رپورٹ میں کیا ہے۔ اس نے کہا ہے کہ ’’ایران نے تین میں سے ایک کیس کیڈ کی تنصیب مکمل کر لی ہے۔یہ 174 آئی آر-2ایم سینٹری فیوجز پر مشتمل ہے۔30 جنوری 2021ء کو ایران نے کیس کیڈ میں یو ایف6 سے فیڈنگ شروع کردی ہے۔‘‘
آئی اے ای اے نے اس امر کی بھی تصدیق کی ہے کہ ایران نے دوسرے کیس کیڈ میں بھی یورینیم کی افزودگی شروع کردی ہے۔اس نے اپنی رپورٹ میں مزید بتایا ہے کہ ایران ’’مزید جدید سینٹری فیوجزمشینیں نصب کررہا ہے۔دو آئی آر-2 مشینوں میں سے ایک کی تنصیب مکمل ہوچکی ہے اور ایک تکمیل کے قریب ہے۔‘‘
آئی اے ای اے میں ایران کے سفیر کاظم غریب آبادی نے ٹویٹر پر اطلاع دی ہے کہ ’’فردو کی تنصیب میں بھی آئی آر-6 کی تنصیب شروع کردی گئی ہے۔‘‘واضح رہے کہ فردو کی جوہری تنصیب ایک پہاڑی سرنگ میں واقع ہے۔اس اسی تنصیب میں ایران 2015ء سے قبل یورینیم کو 20 فی صد تک افزودہ کررہا تھا۔
قبل ازیں اسرائیل کے وزیر توانائی نے کہاہے کہ ایران کو اب ایک جوہری ہتھیار کی تیاری کے لیے درکار ایندھن بنانے میں چھے ماہ کا عرصہ لگے گا۔امریکا کے نئے وزیر خارجہ نے بھی ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ایران اب جوہری بم کی تیاری سے مہینے یا پھر ہفتے دور رہ گیا ہے۔
آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ ایران جولائی 2015ء میں چھے عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری سمجھوتے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یورینیم کو 20 فی صد تک افزودہ کرنا چاہتا ہے لیکن اس وقت وہ 4۰5 فی صد تک یورینیم کوافزودہ کررہا ہے۔
اس جوہری سمجھوتے کے تحت ایران یورینیم کو صرف 3۰67 فی صد تک افزودہ کرسکتا ہے۔یہ جوہری ہتھیار تیار کرنے کے لیے درکار90 فی صد افزودہ یورینیم سے کہیں کم سطح ہے۔
ایران نے دسمبر2020ء میں قانون سازی کے ذریعے یورینیم کو افزودہ کرنے کے لیے اضافی اور جدیدسینٹری فیوجز مشینیں نصب کرنے کا اعلان کیا تھا۔جوہری سمجھوتے میں شامل تین یورپی ممالک برطانیہ ، جرمنی اور فرانس نے ایران کی یورینیم کو افزودہ کرنے کی حالیہ سرگرمیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ ’’اگر ایران سفارت کاری کو موقع دینے میں سنجیدہ ہے تو اس کو ان اقدامات پر عمل درآمد نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
آئی اے ای اے نے اپنی ایک سابقہ رپورٹ میں کہاتھا کہ ایران نطنز میں واقع اپنی زیر زمین جوہری تنصیب میں جدید آئی آر 2 ایم سینٹری فیوجز مشینوں کے تین مزید کلسٹر نصب کرنا چاہتا ہے۔
ایران عالمی طاقتوں کے ساتھ طے شدہ جوہری سمجھوتے کے تحت صرف آئی آر۔1 سینٹری فیوجز کو نطنز میں نصب کرسکتا ہے اور ان ہی کے ذریعے یورینیم کو افزودہ کرسکتا ہے۔یہ مشینیں سست رفتاری سے یورینیم کو مصفا اور افزودہ کرتی ہیں۔
واضح رہے کہ ایران نے مئی 2019ء میں جوہری سمجھوتے کی بعض شرائط پر عمل درآمد نہ کرنے کا اعلان کیا تھا اور اس نے یہ فیصلہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جوہری سمجھوتے سے یک طرفہ طور پر دستبرداری کے فیصلے سے ایک سال کے بعد کیا تھا۔
سابق امریکی صدر نے مئی 2018ء میں اس جوہری سمجھوتے کو خیرباد کہہ دیا تھا اور اسی سال ایران کے خلاف دوبارہ اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں جس کے نتیجے میں ایران کی معیشت زبوں حال ہوچکی ہے اور ملک میں بے روزگاری اور مہنگائی کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ایران نے امریکا کی کڑی پابندیوں کے ردعمل میں جوہری سمجھوتے کی شرائط کی خلاف ورزیاں جاری رکھی ہوئی ہیں ۔