تہران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران ایک جوہری ہتھیار کی تیاری سے مہینے یا ممکنہ طور پر چند ہفتے ہی دور رہ گیا ہے۔ یہ بات امریکا کے نئے وزیر خارجہ انتونی بلینکن نے اپنے پہلے ٹی وی انٹرویو میں کہی ہے۔
انھوں نے این بی سی کی آندریا میچل سے خصوصی انٹرویو میں کہا کہ’’یہ ایک مسئلہ ہے اور یہ زیادہ سنگین ہوسکتا ہے کیونکہ اگر ایران نے سمجھوتے کے تحت عاید کردہ قدغنوں کو ہٹانے کا سلسلہ جاری رکھا تو پھر معاملہ صرف ہفتوں کا رہ جائے گا۔‘‘
انھوں نے کہا:’’حاصل بحث یہ ہے کہ وہ (ایرانی) اس نقطے کے قریب پہنچ چکے ہیں جہاں وہ جوہری طاقت بننے کے قریب ہیں یا وہ دراصل ایک جوہری قوت بن چکے ہیں۔‘‘
امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مئی 2018ء میں ایران اور چھے عالمی طاقتوں کے درمیان طے شدہ جوہری سمجھوتے سے یک طرفہ طور پر دستبردار ہونے کا اعلان کردیا تھا اور تہران کے خلاف سخت اقتصادی پابندیاں عاید کردی تھیں۔ان میں اس کی تیل کی تجارت کو بہ طور خاص ہدف بنایا گیا تھا جس سے اس کی تیل کی برآمدات سکڑ کر رہ گئی تھیں۔
امریکی صدر کے اس فیصلے کے ردعمل میں ایران نے بھی جوہری سمجھوتے میں طے شدہ شرائط کی مرحلہ وار خلاف ورزی شروع کردی تھی اور یہ عندیہ دیا تھا کہ اس نے یورینیم کو اعلیٰ سطح پر افزودہ کرنا شروع کردیا ہے۔امریکا کے نئے صدر جوبائیڈن یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر ایران چھے عالمی طاقتوں سے طے شدہ سمجھوتے کی دوبارہ پاسداری شروع کردے توامریکا بھی ایسا کرنے اور سمجھوتے میں دوبارہ شامل ہونے کو تیار ہے۔
لیکن ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان سعید خطیب زادہ کا کہنا ہے کہ’’امریکا محض ایک دست خط سے جوہری سمجھوتے میں دوبارہ شامل نہیں ہوسکتا،جس طرح اس نے اس کو خیرباد کیا تھا۔‘‘
ترجمان کا یہ بیان اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکا کو جوہری سمجھوتے میں دوبارہ شامل ہونے سے قبل ایران پر عاید قدغنوں کو ختم کرنا ہوگا۔ایرانی قیادت ایک عرصے سے امریکی پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کررہی ہے۔اس کا کہنا ہے کہ وہ اس صورت ہی میں اپنی جوہری سرگرمیوں کو منجمد کرنے کو تیار ہوگی۔
خطیب زادہ نے اس حوالے سے سوموار کو تہران میں پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ’’ہم امریکا کی جانب سے پابندیوں کو ختم کرنے کے اقدام کے منتظر ہیں۔ہمیں ہمارے اپنے فنڈز تک رسائی دی جائے، تیل برآمد کرنے اور اس کی آمدن کو منتقل کرنے کے علاوہ شپنگ اور انشورنس کی اجازت دی جائے۔‘‘وہ تیل کی برآمدات کی مد میں بیرون ملک ایران کے منجمد اربوں ڈالر رقوم کا حوالہ دے رہے تھے۔
انھوں نے واضح کیا کہ امریکا کے ساتھ براہ راست کوئی دوطرفہ بات چیت نہیں ہوگی،امریکا پہلے جوہری سمجھوتا طے کرنے والے چھے ممالک پر مشتمل بلاک میں شامل ہو،اس کے بعد ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں مشترکہ جامع لائحہ عمل میں وضع کردہ میکانزم کے تحت مذاکرات میں شامل ہوسکتا ہے۔