جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) حفاظتی ٹیکے لگنے کے بعد بھی انسان پر کووڈ انیس کی بیماری حملہ آور ہو سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ غم و غصے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ویکسینیشن کے بارے میں اب بھی ایک بڑی غلط فہمی موجود ہے۔
ویکسین لگوانے کے بعد جو لوگ کورونا انفیکشن کا شکار ہوتے ہیں، وہ انتہائی غصے اور غم میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ویکسین کے بارے میں اب بھی بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔
قریب ایک سال سے ہر کوئی کورونا ویکسین کے انتظار میں تھا۔ ہم نے ویکسین کے بارے میں معلومات حاصل کیں، اس بارے میں سامنے آنے والے مطالعات کے بعد ہر کسی کی امید بہت زیادہ بڑھ گئی کہ یہ ویکسین بہت مفید ثابت ہو گی۔
جیسے جیسے ویکسین کی تیاری کا مرحلہ تکمیل کی طرف بڑھتا گیا، ویسے ویسے انسانوں میں خوش اُمیدی بڑھتی چلی گئی۔ جب آخر کار ویکسین تیار ہو جائے گی اور لوگوں کی ویکسینیشن ہو جائے گی تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ زندگی پہلے کی طرح معمول پر آ جائے گی۔
ابھی لوگوں نے کورونا ویکسین کی دستیابی کی خوشیاں منانا شروع ہی کی تھیں کہ مختلف علاقوں سے پریشان اور مایوس کُن خبریں آنا شروع ہو گئیں۔ جرمنی کے صوبے لوئیر سیکسنی کے شہر اُسنابُرک کے ایک ‘ معمر افراد کی نگہداشت کے مرکز‘ میں ایک فرد کورونا کی تبدیل شدہ شکل B.1.1.7 وائرس کا شکار ہو گیا ہے۔ پہلی کے بعد اب دوسری ویکسین بھی لگنے والی تھی کہ ایک اور شخص پر کووڈ انیس نے حملہ کیا۔ یہ بظاہر ویکسینیشن کی ایک واضح ناکامی ہے مگر حقیقت میں یہ ویکسین کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمی ہے۔
جرمنی میں ویکسینیشن کے پہلے مرحلے میں 80 سال یا اس سے زیادہ کی عمر کے افراد کو ویکسین دی گئی۔
اُسنابرک کے مقامی پریس ترجمان برکہارڈ ریپنہوف نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،” یہاں پر چند کیسز تو ایسے تھے جن میں کورونا کی کوئی علامات ظاہر نہیں تھیں اور اس کے علاوہ بس زیادہ تر کورونا کیسز میں ہلکی پھلکی علامات ہی پائی جاتی تھیں۔‘‘
نرسنگ ہوم کے حکام اور ڈاکٹروں کو بھی یقین ہے کہ ویکسین کی دوسری ڈوز کووڈ انیس کو روکنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
کووڈ انیس کے خلاف اب تک کی منظور شدہ سب ہی ویکسین بہت موثر ہیں۔ اگر ویکسین لگوا چُکنے والے کسی شخص کا رابطہ SARS-CoV-2 کے شکار مریض سے ہو تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ وہ بیمار نہیں ہو گا یا کم از کم بہت شدید طور پر متاثر نہیں ہو گا۔ بہرحال کورونا سے بچاؤ کے بنیادی اقدامات اور احتیاطی تدابیر پر قائم رہنا بہت ضروری ہے۔ روبرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کے مطابق،” کیونکہ وہ شخص جس کی ویکسینیشن ہو بھی چُکی ہو، وہ بھی کورونا وائرس کی منتقلی میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘
دراصل ہم سب ایک مثالی صورتحال کی امید میں ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کورونا ویکسینیشن کے ذریعے ایک طرح کی جراثیم سے پاک اور ان کے خلاف بھرپور مدافعت پیدا ہو جائے گی۔ عام خیال یہی ہے کہ ویکسین پہلے انسانوں کو انفیکشن سے بچائے گی، اس وائرس کے جسم میں جذب ہونے سے پہلے ہی اس کو پکڑے گی۔ یہ بھی کہ جن لوگوں کو ویکسین لگ چُکی ہے، وہ وائرس کو مزید آگے منتقل نہیں کر سکتے ہیں۔ یعنی ویکسین اس وائرس کے خلاف ایک مضبوط مدافعت پیدا کرنے کا باعث بنے گی۔ تاہم وفاقی ادارہ برائے ہیلتھ ایجوکیشن کے مطابق،” اس قسم کی جراثیم کُش تاثیر کی اب تک اس ویکسین میں موجودگی ثابت نہیں ہوئی ہے۔‘‘
بہرحال یہ نام نہاد ‘فنکشنل امیونٹی‘ خود انفیکشن کو نہیں روکتی لیکن جس کو بھی ویکسین لگ چُکی ہو، اس کے اندر کووڈ انیس بیماری کی سنگین صورتحال تک پہنچنے سے بچنے کی صلاحیت پیدا ہو جاتی ہے۔