اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان کے آئین کے مطابق ایک سو بیس دنوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کروانا لازمی ہے لیکن پاکستان کے کسی بھی صوبے میں اس وقت مقامی حکومتیں کام نہیں کر رہی ہیں۔
آج کل پاکستان کی سپریم کورٹ مقامی حکومتوں کے نظام کے حوالے سے ایک اہم مقدمے کی سماعت کر رہی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے روبرو پنجاب حکومت نے اسی سال جون، جولائی اور اگست کے مہینوں میں تین مراحل میں یہ انتخابات کروانے کا وعدہ کیا ہے۔ جبکہ خیبر پختونخواہ کی حکومت نے عدالت کے سامنے اپریل اور مئی کے مہینوں میں دو مرحلوں میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کروانے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ بلوچستان اور سندھ کے حوالے سے اس مقدمے کو گیارہ فروری تک ملتوی کر دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے حال ہی میں جرمنی کے ایک غیر سرکاری ادارے ڈیموکریسی رپورٹنگ انٹرنیشل نے پاکستان کے حوالے سے ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا ہے۔ اس مقالے کے حوالے سے ڈیمو کریسی رپورٹنگ انٹرنیشل پاکستان کے سربراہ جاوید ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ دنیا کے مختلف ملکوں کے حالات کے جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ اگر جمہوری حکومتیں اپنی حکومت کے قیام کے دو سال کے اندر مقامی حکومتوں کے انتخابات نہیں کرواتیں تو پھر ان کے لئے یہ انتخابات کروانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ جاوید ملک کا خیال ہے کہ اس معاملے کو ایک سیاسی مئسلے کے طور پر دیکھا جانا چاہیئے اور اس پر ایک سیاسی مکالمے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ اراکین اسمبلی قانون سازی پر توجہ مرکوز کرنے کی بجائے ترقیاتی منصوبوں کی سیاست سے باہر نہیں آنا چاہتے۔ مقامی حکومتوں کا نظام آنے سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ ایسا ہونے سے ترقیاتی فنڈز سے ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں اور مقامی ترقیاتی امور میں ان کا کردار محدود ہو سکتا ہے۔ مقامی سیاست پر اجارہ داری رکھنے والے کئی پرانے سیاسی خاندان مقامی حکومتوں کے نتیجے میں سامنے آنے والی نئی قیادت کو بھی اپنے لئے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں لوکل کونسلزایسوسی ایشن کے ڈائریکٹرانور حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں خدمت کی سیاست کی جگہ سیاست کی سرمایہ کاری کا رجحان بڑھ رہا ہے، جو لوگ کروڑوں روپے خرچ کرکے الیکشن جیت کر آتے ہیں وہ کیسے گوارا کر سکتے ہیں کہ ترقیاتی فنڈز کوئی اور لے جائے۔
انور حسین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سڑکیں بنوانے اور گلیاں پکی کروانے کو ہی ارکان اسمبلی اپنی کارکردگی کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ انور حسین کا خیال ہے کہ پاکستان میں منتخب ارکان پارلیمنمٹ نہیں چاہتے کہ ملک میں مقامی حکومتوں کا نظام تقویت پکڑے۔
ڈیمو کریسی رپورٹنگ انٹرنیشل پاکستان کے سربراہ جاوید ملک اس مئسلے کا حل یہ بتاتے ہیں کہ کچھ عرصے کے لئے ممبران اسمبلی کو مقامی حکومتوں کے نظام میں کوئی رول دے دینا چاہیئے تاکہ وہ اس نظام سے خوف زدہ ہونے کی بجائے اس کا حصہ بن کر کچھ نہ کچھ رول ادا کر سکیں۔ جاوید ملک بتاتے ہیں کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات میں ایک بڑی رکاوٹ پاکستان کی بیوروکریسی بھی ہے۔ ان کے مطابق بیوروکریسی سمجھتی ہے کہ مقامی حکومتوں کا نظام مضبوط ہو گیا تو ان کا معاملات پر کنٹرول کم ہو جائے گا۔
جاوید ملک بتاتے ہیں کہ مقامی حکومتوں کے حوالے سے پنجاب اور کے پی کے قوانین بہتر ہیں لیکن سندھ اور بلوچستان کے قوانین میں اب بھی بیورو کریسی کو زیادہ طاقت دی گئی ہے۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان دنیا کا ایک بڑا ملک ہے سرکاری افسروں کا نیٹ ورک آبادی کے حساب سے بہت چھوٹا ہے۔اسلام آباد کے بلدیاتی الیکشن ’تبدیلی مشکل ہے‘
ان کا کہنا ہے کہ سرکاری ملازم پانچ بجے کے بعد چھٹی کرکے گھروں کو چلے جاتے ہیں جبکہ کونسلرعلاقے میں چوبیس گھنٹے موجود رہتا ہے۔ ان کی رائے میں اگر آج مقامی حکومتوں کا نظام موجود ہوتا تو ہم کورونا کے بحران کا مقابلہ زیادہ بہتر انداز میں کر سکتے تھے۔