میانمار (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ اور امریکا نے میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں پر تشدد کرنے کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
امریکا اور اقوام متحدہ نے معزول رہنما آنگ سان سوچی کے یانگون میں پارٹی دفتر پر چھاپے ماری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوجی بغاوت کے خلاف مظاہرین پر ہونے والے پر تشدد کارروائیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا کہ ہر شخص کو اظہار رائے اور پر امن اجتماع کا حق حاصل ہے۔ ان کا کہنا تھا، ”ہم فوج کو اقتدار سے دستبردار ہونے، جمہوری طور پر منتخب حکومت کو بحال کرنے، نظر بند افراد کو رہا کرنے، ٹیلی مواصلات کی تمام پابندیوں کو ختم کرنے اور تشدد سے باز آنے کے اپنے مطالبے کو دہراتے ہیں۔”
اقوام متحدہ نے بھی مظاہرین کے خلاف تشدد کرنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اقوام متحدہ میں میانمار امور کی رابطہ کار اولا المغرین کا کہنا تھا، ”مظاہرین کے خلاف غیر متناسب طاقت کا استعمال قطعی ناقابل قبول ہے۔”
اس دوران یورپی یونین میں خارجی امور کے سربراہ نے کہا ہے کہ یونین میانمار کی فوج کے خلاف پابندی عائد کرنے جیسے تمام پہلوؤں پر غور کر رہی ہے۔
معزول رہنما آنگ سان سوچی کے یانگون میں واقع پارٹی دفتر پر چھاپے کی کارروائی کے بعد امریکا اور اقوام متحدہ میں گہری تشویش پائی جاتی ہے۔ سوچی کی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کا کہنا ہے کہ ”منگل کی رات کو ان کی جماعت کے صدر دفتر پر فوج نے چھاپہ مارا اور اسے پوری طرح سے تہس نہس کر دیا۔”
فوج نے ملک میں احتجاج کی لہر کو روکنے کے لیے ہر قسم کے عوامی اجتماعات پر پابندی کا اعلان کر رکھا ہے اس کے باوجود منگل کو لوگوں کی ایک بڑی تعداد احتجاج کے لیے گھروں سے باہر نکلی۔ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ربڑ کی گولیوں، آنسو گیس کے علاوہ تیز دھار پانی کا بھی استعمال کیا۔
مظاہرین جمہوری حکومت کی بحالی کے ساتھ ساتھ معزول رہنما آنگ سان سوچی کی رہائی کا بھی مطالبہ کر رہے ہیں۔ مظاہرین نے جمہوریت کے حق میں بینر اٹھا رکھے تھے اور فوجی قیادت کے خلاف نعرے بھی لگا رہے تھے۔
یکم فروری کو ملک کے فوجی کمانڈر نے بغاوت کرتے ہوئے منتخبہ حکومت کا تختہ پلٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا۔ فوج کا کہنا ہے کہ گزشتہ نومبر میں ہونے والے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔
اس الیکشن میں آنگ سان سوچی کی جماعت کو زبردست کامیابی حاصل ہوئی تھی اور انتخابی کمیشن نے بھی الیکشن کو درست قرار دیا تھا۔ فوج نے اسی روز آنگ سان سوچی کو حراست میں لے لیا تھا اور تب سے ان کا کچھ اتہ پتہ نہیں ہے۔