امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) نئی امریکی انتظامیہ نے چین کے حوالے سے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کے لیے فوجی حکام پر مشتمل ایک ٹاسک فورس کا اعلان کیا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے بدھ 10 فروری کو ایک 15 رکنی عسکری ٹاسک فورس کا اعلان کیا جو چین کے ساتھ موجودہ امریکی پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لیتے ہوئے اپنی رپورٹ دے گا۔ فوجی ماہرین کا یہ گروپ اپنی رپورٹ میں چین کے حوالے سے پالیسیوں پر اپنی سفارشات بھی پیش کرے گا۔
وائٹ ہاؤس نے اپنی خارجہ پالیسی کا بڑے پیمانے پر از سر نو جائزہ شروع کردیا ہے اور یہ اقدام بھی اسی کا ایک اہم حصہ ہے۔
صدر بائیڈن نے پینٹاگون کے اپنے دورے کے دوران صحافیوں سے بات چیت میں کہا، ”ہمیں خطہ بحر الکاہل اور بین الاقوامی سطح پر امن برقرار رکھنے اور اپنے مفادات کے دفاع کے لیے چین کی طرف سے درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔”
نئی امریکی انتظامیہ نے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی خارجہ پالیسیوں کا تجزیہ شروع کیا ہے اور اسی کے تحت چین سے متعلق اس ٹاسک فورس کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نیٹو کے تئیں بھی امریکی پالیسیوں کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ مشرق وسطی میں تعینات امریکی فوجیوں کے انخلاء کے بارے میں بھی سوچ رہی ہے۔
مذکورہ ٹاسک فورس کے سربراہ نئے وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے خصوصی معان ایلائی راتھر ہوں گے۔ فوجی ماہرین کے ساتھ ساتھ بعض سرکردہ سویلین ماہرین بھی اس ٹیم کا حصہ ہوں گے۔
نئے ٹاسک فورس کو چین سے متعلق امریکی فوجی حکمت عملی، ٹیکنالوجی، اس کے ساتھ اتحاد اور بیجنگ کے ساتھ دو طرفہ دفاعی تعلقات کے بارے میں اپنی سفارشات پیش کرنے کے لیے چار ماہ کا وقت دیا گیا ہے۔
بائیڈن نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس ٹیم کی جو بھی سفارشات ہوں گی ان پر عمل کے لیے کانگریس میں دونوں جماعتوں کے ارکان کی حمایت ضروری ہوگی۔
اس موقع پر جب صدر بائیڈن سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا امریکا چین کو اس بات کے لیے سزا دیگا کہ وہ کورونا وائرس کی وبا کے ماخذ سے متعلق بہت سے حقائق کی پردہ پوشی کرتا رہا ہے، اس پر امریکی صدر کا کہنا تھا کہ اس کے لیے سب سے پہلے تو یہی ضروری ہے کہ ہم پہلے خود تمام حقائق سے اچھی طرح آگاہ ہوں۔