گزشتہ دنوں ایک بڑی خوش آئیند اور دلپذیر خبر سننے کو ملی کہ اقوام متحدہ نے اردو کو ساتویں بڑی زبان تسلیم کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اقوام متحدہ میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان اپنا مقالہ اردو میں پیش کرے میرے لئے اور تمام محبان اردو کے لئے یہ ایک بہت بڑی خبر تھی مگر جب پلٹ کر مور کی طرح اپنے پائوں کی طرف دیکھا تو اشکبار ہوگیا وجہ صاف ظاہر تھی کہ دنیا مانتی ہے کہ اردو ایک زبان ہے مگر قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے جن کی قومی زبان اردو ہے وہ اپنے گلے سے غلامی کی زنجیر اتارنے پر آمادہ نہیں ،ہم اپنی قومی زبان کو دفتری زبان بنانا پسند نہیں کر رہے ،ہم 73سالوں میں ایک قوم نہ بن سکے اگر قوم بن جاتے تو قومی زبان ہماری اولین ترجیح ہوتی مگر وائے افسوس ایسا نہ ہو سکا بلکہ ہم نے تعلیم یافتہ ہونے کا معیار انگریزی بول چال اور لکھنے کو سمجھا ،ہمارے قومی دفاتر سے آوازیں گونجتی ہیں کہ اردو زبان نامنظور ،بلکہ المیہ دیکھئے کہ یہاں نفاذ اردو کے حق میں عدالت جو فیصلہ سناتی ہے وہ بھی انگریزی میں رقم کیا جاتا ہے کب اتاریں گے ہم اپنے گلے سے زنجیر انگریزی ؟سکولوں میں نصاب انگریزی ،حاکم وقت کا خطاب انگریزی ،عدلیہ میں احتساب انگریزی ،سوال اردو کا ہو یا پنجابی مگر جواب انگریزی وہ قوم کیا قوم ہوگی جسکے سامنے اردو کا تمسخر اڑایا جائے اور اسے تکلیف ہی نہ ہو ثابت ہوا کہ تہتر سالوں میں ابھی ہم ایک قوم ہی نہیں بن سکے اگر قوم ہوتے تو کرہ ارض پر ہم جہاں بھی ہوتے یا جاتے اپنی زبان کو ہی اولیت دیتے مگر وائے افسوس کہ آج تک ایسا ہو نہیں سکا۔۔
کیا بنے گا اس قوم کا جس کا میٹرک یا ایف اے کلرک بھی باآواز بلند کہہ دے کہ اردو زبان نامنظور تف ہے ایسے نظام پر جس قوم کی قومی عدالت کی کرسی پر بیٹھ کر ایک جج اپنے سامنے پیش ہونے والے ڈپٹی کمشنر کو صرف اس لئے غریب کہہ دے کہ اس نے شلوار قمیض پہن رکھی تھی اس کی سرزنش اس جرم کی پاداش میں ہو کہ وہ قومی لباس زیب تن کئے ہوئے تھا سوال یہ پیدا ہوتا کہ شلوار قمیض پہننے سے بندہ غریب ہو جاتا ہے اردو بولے تو کم پڑھا لکھا یا جاہل بن جاتا ہے ؟اگر ایک آدمی دس ہزار روپے کا شلوار قمیض ہزار روپے سلائی دے کر سلوا کر پہنتا ہے تو وہ غریب ہوتا اس پر طرہ یہ کہ اگر وہ بندہ اردو بھی بولے تو جاہل کا خطاب بھی اسے ساتھ ہی عطا کر دیا جائے گا اور دوسری طرف ایک آدمی لنڈے بازار سے تین سو روپے کی پتلون شرٹ لے کر پہن لے تو وہ پہنتے ہی امیر ہو جائے گا اور ساتھ ہی لقوہ زدہ مریض کی طرح منہ ٹیڑا کر کے رک رک کر ٹوٹی پھوٹی انگریزی بولے تو فلاسفر بن جائے گا واہ رے واہ کیا معیار قائم کر رکھا ہے آپ نے تعلیم یافتہ و جاہل کی جانچ کا اور کیسا نایاب پیمانہ بنا رکھا ہے غربت و ثروت کا ۔۔۔! نفاذ اردو کے لئے جو لوگ دن رات ایک کئے ہوئے ہیں ان محبان اردو کو میں سرخ سلام پیش کرتا ہوں بالخصوص محترمہ فاطمہ قمر ،محترم حامد انوار ،محترم عامر شریف،محترمہ عروبہ عدنان ،محترم عطاء الرحمان چوہان ،محترم پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم سراء ،اور بشمول میرے دیگر ایسے فرزندان قوم جو اپنی دھرتی پر اپنی قومی زبان کے نفاذ کے خواہاں ہیں ۔
میری نظر سے اب تو کوئی چینی باشندہ ایسا نہیں گزرا جو انگریزی کو اولیت دیتا ہو ،کوئی جرمن انی زبان بولنے یا لکھنے سے بیزار بھی دیکھائی نہیں دیا ،ہالینڈ کا کوئی ایک شہری ایسا نہیں ملے گا جو ڈچ بولنے یا لکھنے سے احساس کمتری محسوس کرتا ہو ،کوئی جاپانی اپنی زبان و نصاب کا تارک بھی سامنے نہیں آیا یا یہ کہ مذکورہ بالا سب اپنا نصاب اپنی زبان میں پڑھنے یا بولنے کو جہالت سے تشبیح دیتا ہوا بھی نہیں ملے گا۔ پھر خدا جانے کب ہماری غلامانہ سوچ بدلے گی ؟ کب ہماری عدالتیں اردو میں کسی مقدمے کی کارروائی کر کے اور ان مقدمات کے فیصلے اردو میں رقم کر کے فخر محسوس کریں گی ؟سننے میں آرہا ہے کہ نصاب تعلیم یکساں رائج ہونے والا ہے اللہ کرے یہ سچ ہو ۔پہلی جماعت سے لے کر ماسٹر ڈگری تک ماسوائے ایم اے انگریزی ،فارسی و عربی کے باقی تمام ڈگریوں کا نصاب اردو میں مرتب ہو یہ میری خواہش تھی جو اب حسرت کے قالب میں ڈھلتی جارہی ہے ۔۔۔!کیا سائنس مضامین کی تعلیم یا نصاب اردو ہونے سے قیامت کا اعلان ہو جائے گا ؟ قانون اگر قومی زبان میں پڑھا جائے گا تو کونسا حشر برپا ہونے کا اندیشہ ہے ؟
کیا مسلمان کیمیاء دانوں اور علم ریاضی کے ماہرین نے اپنی مادری یا قومی زبانیں تیاگ کر اپنے اپنے شعبہ میں دسترس حاصل کی تھی ؟جاپان ،چین ،تھائی لینڈ،ایران ،جرمن ،فرانس،ہالینڈ ،روس، پولینڈ ،ہنگری وغیرہ تمام ممالک میں دفتری زبان انگریزی ہے ؟اگر جواب نفی میں ہے تو کیا وہ پسماندہ ممالک میں گنے جاتے ہیں ؟تو پھر ماننا پڑے گا کہ مسئلہ اردو سے نہیں مسئلہ طبقات کا ہے کہ اگر نصاب اردو ہو ،دفتری اور عدالتی زبان اردو ہو تو فرق کا کیسے پتہ چلے گا کہ یہ اشرافیہ ہے اور یہ عام پاکستانی بلکہ پھر تو سب کے سب پاکستانی ہو جائیں گے اور یہ کچھ غلامانہ سوچ کے حاملین کو گوارا نہیں جو آج بھی محبان تاج برطانیہ ہیں وہ کالے انگریز آج تک کسی نہ کسی صورت میں ہم پر مسلط ہیں اور وہ قطعی نہیں چاہتے کہ اقتدار اور افسر شاہی کی باگ ڈور کسی عام پاکستانی کے ہاتھوں میں آئے یہاں میں ان غلامان فرنگیہ سے پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ آپ لوگ قائد اعظم محمد علی جناح سے بہتر یا زیادہ روانی سے انگریزی بول ،لکھ یا پڑھ سکتے ہیں ؟
وہی قائد جو انگریزوں سے بہتر انگریزی بولتے تھے میرے اسی عظیم قائد کا فرمان ہے کہ پاکستان کی قومی و دفتری زبان صرف اور صرف اردو ہوگی کیا وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کہ انگریزی نظام تعلیم کی بدولت ہم زیادہ تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائیں گے ؟مگر کہیں بھی بانی پاکستان نے یہ نہیں کہ ترقی کا راز انگریزی نظام تعلیم میں پوشیدہ ہے بلکہ قطعیت سے یہ کہا کہ ہمارا نظام تعلیم اور دفتری زبان اردو کے علاوہ کوئی نہیں ہوگا پھر ہم نے قائد کے فرمان سے روگردانی کیوں کی میں حلفیہ کہتا ہوں کہ آج نظام تعلیم و نصاب تعلیم اردو میں نافذ کر دو پھر ترقی خواندگی کی شرع خود دیکھ لینا ،آج عدالتی و دفتری نظام اردو میں شروع کردو پھر دیکھو قانون پر عملداری کیسے ہوتی ہے قوم کے لیڈر بنو قومی زبان کے نفاذ کو یقینی بنائو۔۔