لداخ (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت کا کہنا ہے کہ خطہ لداخ میں کشیدگی کم کرنے کے حوالے سے چین کے ساتھ ایک سمجھوتہ طے پا گيا ہے جس کے تحت فریقین نے بعض مقامات سے اپنی فوجیں پیچھے ہٹانی شروع کر دی ہیں۔
بھارت کے وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے جمعرات گیارہ فروری کو پارلیمان میں چین کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ دونوں ملکوں نے مشرقی لداخ میں پینگانگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں سے فوجیں پیچھے ہٹانے پر اتفاق کرلیا ہے اور اس پر عمل درآمد بھی شروع کر دیا گیا ہے۔
بھارتی وزیر دفاع کا کہنا تھا، ”میں ایوان کو یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس کرتا ہوں کہ ہمارے پختہ ارادوں اور دیرپا مذاکرات کے نتیجے میں پینگانگ جھیل کے شمال اور مغربی کناروں سے فوجوں کے پیچھے ہٹانے سے متعلق چین کے ساتھ ایک سمجھوتہ ہوگیا ہے۔”
ان کا مزید کہنا تھا، ”فوجوں کی واپسی کے لیے چین کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے مطابق، دونوں فریق مرحلہ وار، مربوط اور مستند انداز میں فوج کو پیچھے ہٹائیں گے۔”
اس سے قبل بھارتی میڈیا میں یہ خبر چین کے حوالے سے شائع ہوئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ دونوں ملکوں کی فوجوں نے پینگانگ جھیل کے متنازعہ علاقوں سے فوجیں ہٹانی شروع کر دی ہیں۔ تاہم بھارت نے اس خبر پر کوئی تبصرہ کرنے کے بجائے کہا تھا کہ وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ پارلیمان کو اس پیش رفت سے آگاہ کریں گے۔
بھارتی وزیر دفاع نے جس سمجھوتے کی تفصیل ایوان کو بتائی ہیں اس کے مطابق فریقین نے ابھی صرف پینگانگ جھیل کے شمالی اور جنوبی کناروں سے فوجوں کو پیچھے ہٹانے پر رضامندی ظاہر کی ہے جبکہ دیگر متنازعہ علاقوں سے متعلق فی الحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے اور وہاں اب بھی صورت حال جوں کی توں برقرار رہے گی۔ بیان کے مطابق دیگر علاقوں میں بھی کشیدگی کو کم کرنے کے حوالے سے بات چیت کا سلسلہ جاری رہیگا۔
راج ناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ پینگانگ جھیل کے، ”مشرق کی سمت شمالی کنارے پر چین اپنی فوج فنگر آٹھ کے پاس ہی رکھے گا جبکہ بھارت اپنی فوجی یونٹ فنگر تین کے پاس اپنی مستقل پوسٹ دھن سنگھ تھاپا چوکی کے پاس تعینات کرے گا۔ جھیل کے جنوبی ساحلی خطے میں بھی فریقین کی طرف سے ایسی ہی کارروائیاں کی جائیں گی۔”
”باہمی اتفاق سے ان اقدامات کے تحت پیش رفت کی جائے گی اور اپریل 2020 سے پہلے شمالی اور جنوبی ساحلوں پر فریقین کی جانب سے جو بھی تعمیرات وغیرہ کی گئی ہیں، انہیں بھی وہاں سے ہٹا کر پہلے والی صورت حال کو بحال کر نے پر اتفاق ہوا ہے۔”
بھارتی وزیر دفاع کا یہ بھی کہنا تھا کہ فریقین نے جھیل کے شمالی کنارے پر گشت سمیت تمام دیگر فوجی سرگرمیوں پر بھی اس وقت تک روک لگانے پر اتفاق کیا ہے جب تک اس بارے میں کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں پا جاتا۔ انہوں نے بتایا کہ جب فوجی سطح کے مذاکرات میں کوئی معاہدہ طے پا جائیگا تبھی اس علاقے میں فوجی گشت دوبارہ شروع کی جائیگی۔
بھارتی وزیر دفاع نے اس موقع پر یہ دعوی بھی کیا کہ بھارت نے چین سے یہ معاہدہ کرنے کے لیے اپنی ایک انچ بھی زمین کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے بھارت نے کبھی بھی چینی دعوؤں کو تسلیم نہیں کیا۔
غور طلب ہے کہ گزشتہ برس اپریل تک بھارت پینگانگ جھیل کی فنگر آٹھ تک گشت کیا کرتا تھا اور تنازعے کے بعد چین نے اسے فنگر چار تک محدود کر دیا تھا۔ تاہم اب نئے معاہدے کے تحت اس کی فوج فنگر تین کے پاس ہی رکے گی۔
انہوں نے کہا، ”پاکستان نے غیر قانونی طور پر چین کو بھارتی زمین دیدی تھی تاہم ہم ایسے کسی بھی معاہدے کو تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ چین بھارت کے ایک بہت بڑے علاقے پر اپنا دعوی بھی کرتا ہے تاہم ہم نے کبھی ان دعوؤں کو تسلیم نہیں کیا ہے۔”
بھارت چین سرحدی تنازعہ بھارت اور چین میں شمالی مشرقی علاقے سکم سے لیکر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر کی سرحد مشترک ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن
آف ایکچوؤل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان دیرینہ سرحدی تنازعہ ہے۔ ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں کے درمیان گزشتہ تقریبا آٹھ ماہ سے مشرقی لداخ میں کشیدگی کا ماحول رہا ہے۔
بھارت اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر تنازعہ کی ابتدا گزشتہ برس مئی میں ہوئی تھی اور جون کے وسط میں وادی گلوان میں دونوں فوجیوں کے درمیان ہونے والے ایک تصادم میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔
اس واقعے کے بعد سے فریقین کے درمیان فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت کے تقریباً نو ادوار ہوئے جس کے بعد یہ تازہ پیش رفت ہوئی ہے۔