جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے ایک بار پھر ایران کی جانب سے یورینیم کی طے شدہ حد سے زیادہ شرح تک افزودگی کی مذمت کی ہے۔ ان ممالک کو امید ہے کہ تہران اور واشنگٹن جوہری معاہدے سے متعلق مذاکرات میں واپس آ سکتے ہیں۔
جرمنی، فرانس اور برطانیہ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو مؤثر اور زیر عمل رکھنے کی امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران اس حوالے سے 2015ء میں کیے گئے اپنے وعدوں کی خلاف ورزی کر کے اس بین الاقوامی معاہدے کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
اس سے قبل اقوام متحدہ کی جوہری توانائی کی ایجنسی نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ایران یورینیم کی افزودگی کی شرح بڑھا کر اس معاہدے کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
تین بڑے یورپی ممالک برطانیہ، جرمنی اور فرانس کی خواہش ہے کہ ایران اور امریکا اس معاہدے کے حوالے سے مشترکہ جامع پلان آف ایکشن یا (جے سی پی او اے) کے تحت ہونے والی نئی بات چيت میں حصہ لیں۔
ان تینوں ممالک نے اس حوالے سے اپنے ایک مشترکہ مکتوب میں کہا ہے، ’’اپنی طرف سے عدم تعمیل میں اضافہ کر کے ایران جے سی پی او اے کے مقاصد کو اچھی طرح نا سمجھتے ہوئے سفارت کاری کے نئے مواقع کی اہمیت کو کم کر رہا ہے۔‘‘
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
جرمن وزارت خارجہ نے ٹوئٹر پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ تینوں یورپی ممالک سمجھتے ہیں کہ ایران کے پاس یورینیم کی بہت زیادہ حد تک افزودگی کا ’کوئی قابل اعتبار غیر عسکری جواز نہیں تھا، جو دراصل جوہری ہتھیار تیار کرنے کی طرف ایک کلیدی قدم ہے۔‘‘
معاہدے پر عمل یا پابندیاں ختم، پہلے کیا ہونا چاہیے؟ جنوری میں امریکا میں جو بائیڈن کی طرف سے عہدہ صدارت سنبھالے جانے کے بعد وائٹ ہاؤس نے جے سی پی او اے پر نظر ثانی کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا تھا تاہم اس سلسلے میں مذاکرات کی میز پر واپسی کے لیے دونوں ممالک کی اپنی اپنی علیحدہ علیحدہ شرائط ہیں۔
ایران کا کہنا ہے کہ پہلے امریکا کو چاہیے کو وہ ان پابندیوں کو ختم کرے جو اس نے تہران پر لگا رکھی ہیں۔ لیکن واشنگٹن کا اصرار اس بات پر ہے کہ ایران پہلے اس معاہدے پر مکمل طور پر عمل درآمد بحال کرے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ایران کو یورینیم کی افزدگی کی شرح کم کر کے معاہدے کے تحت متفقہ حد یعنی 3.67 فیصد تک لانا ہوگی۔ ایران نے جوہری معاہدے کی رو سے یورینیم کی صرف 3.67 فیصدکی شرح تک افزودگی کی حد کو توڑتے ہوئے گزشتہ جنوری میں اپنی تنصیبات میں یورینیم کی 20 فیصد تک افزودگی شروع کر دی تھی۔
قبل ازیں پرسوں جمعرات کے روز ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ سب سے پہلے امریکا اس معاہدے سے دستبردار ہوا تھا، اس لیے اس معاہدے میں واپسی کے لیے پہل بھی اسے ہی کرنا چاہیے۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سن 2015 میں طے پانے والے اس جوہری معاہدے سے امریکا کے الگ ہو جانے کے یکطرفہ اعلان کے بعد تہران نے بھی اس جوہری معاہدے کی شقوں کی پاسداری ختم کر دی تھی، جس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں۔