غالب کی شخصیت کو آفاقیت عطا کرنے میں اُن کی شاعری اور مکاتیبِ اسلوب کے تہہ بہ تہہ مطالب کی کارفرمائیاں شامل ہیں۔ غالب شناس ان دانش ورانہ نِکات کو مزید وسعت دے رہے ہیں، اور ایک ایک نُطق کوسوسو ناز سے سجارہے ہیں۔ ٢٠١٢ء میں جمیل الدین عالی، پرتوروہیلہ کی کتاب ”بارے غالب کا کچھ بیاں ہوجائے” کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں:
”غالب شناسی اور مطالعۂ غالب ایک ایسی کائنات ہے کہ ایڈنگٹن اور اسٹیفن ہاکنگ کی ”کائنات” کی طرح برابر وسعت پذیر ہورہی ہے۔ ہر مرحلے پر خیال آتا ہے کہ شاید یہ کام یا یہ تحقیق غالب پر حرفِ آخر کی حیثیت رکھتی ہو لیکن پھر کوئی غالب شناس خم ٹھونک کر میدان میں آجاتا ہے کہ ”یہ وقت ہے شگفتنِ گل ہائے ناز کا” اور غالب شناسی کاایک آدھ در اِس طرح وا کردیتا ہے کہ اس میں نئی کرنوں کی درآمد کے ساتھ ساتھ غالب کے خدوخال بھی نئے زاویوں سے نمایاں ہونے لگتے ہیں”۔
غالب کی شخصیت، فکروفن کے ہزارہا گوشوں میں ایک گوشہ سفرِ کلکتہ بھی اِس لیے اہم قرار دیا گیا ہے کہ یہ ہمارے ادبی، سماجی اور ثقافتی فروغ میں معاون ثابت ہوا ہے۔ جب جب اِس مَسافت کے تعلق سے میں باندہ کے ذکر پر غور کرتا تو نہ جانے کیوں ذہن میں کئی سوالات اُبھرنے لگتے۔ مثلاً باندہ سے مرزا کا کیا رشتہ اور رابطہ تھا؟ وہ منزل سے مختلف راستے (off the way) پر کیوں گئے؟ سفر سے پہلے اور سفر کے بعد باندہ والوں سے اُن کا کیا تعلق رہا؟ وہاں چھ ماہ کے قیام میں اُن کی کیا مشغولیات رہیں؟ محفلیں کس وسیلے سے سجتیں، شب وروز کیسے گُزرتے؟ مقامی ادیبوں پر کیا اثرات مرتب ہوئے؟ وہاں کی پروان چڑھ رہی گنگا جمنی تہذیب میںکیا نکھار آیا؟ دورانِ قیام مہیا ہونے والے پُرسکون ماحول میں غالب نے فارسی اور اردو نثرونظم میں کیا خلق کیا؟ کیا وہ تمام تخلیقات محفوظ ہیں؟ اگر نہیں تو اُس کے اسباب کیا ہیں؟ کتنی نگارشات گم شدہ ہیں اور ان کی تلاش وجستجو کی کیا رفتار ہے؟ یہ وہ چھوٹے چھوٹے سوالات ہیں جنھوں نے تحیّر وتجسّس کو مہمیز کیا کہ دورانِ سفر کانپور اور لکھنؤ میں قیام کی تفصیل موجود ہے۔ الٰہ آباد جس کے لیے غالب کہہ کر چلے تھے کہ ایک ماہ قیام کروں گا مگر رہے صرف ایک دن۔ اسی طرح بنارس میں دو ایک دن ٹھہرنا تھا، ایک ماہ مقیم رہے۔ اِن شہروں کی روداد اور تاثرات بالتفصیل دستیاب ہیں مگر جہاں چھ ماہ قیام کیا، وہاں کے شب وروز کی تفصیل سے ہم محروم کیوں ہیں؟ یہی وہ بنیادی سوالات ہیں جنھوں نے اِس جانب توجہ دلائی اور تفتیش وتحقیق پر اُکسایا۔
تاریخ شاہد ہے کہ ہوش سنبھالتے ہی غالب کو احساس ہوا کہ ورثے میں جو معاشی اور مادّی سہولتیں مہیّا ہونی تھیں اُن پر غاصبانہ قبضہ ہوا ہے۔ لہٰذا وہ اپنے جائز حق کے لیے تگ ودو کرتے ہیں ورنہ وہ بھی دیگر عزیزوں کی طرح غمِ روزگار کے مشکل مرحلوں کے مادّی اسباب تلاش کرتے۔ ساہو کاروں نے بھی تمام عمر اُنھیں اِسی بھروسہ پر قرض دیا کہ اُن کا حق سرکار سے اُنھیں ملنے والا ہے۔ شش وپنج کی اس کیفیت کے ساتھ ساتھ گھریلو مصائب نے ذہنی تناؤ میں مزید اضافہ کیا مگر وہ تمام عمر صبروتحمل کا مظاہرہ کرتے رہے۔ اُن میں بھی ابنِ آدم کی طرح انسانی کمزوریاں تھیں لیکن غیر معمولی دانش وری، بذلہ سنجی، خداداد صلاحیت ، قوتِ مدافعت اور فنکارانہ مہارت نے انسانی کمزوریوں کو پسِ پشت ڈال دیا۔
غالب بے حد حسّاس ، نازک مزاج، خوددار اور اناپسند انسان تھے۔ اُن کی عظمت کا اعتراف حاکمانِ وقت نے بھی کیا ہے۔ اب اگر کسی کو ان کے یہاں دُنیاداری یا مصلحت پسندی نظر آتی ہے تو یقینا اُس کے پسِ پُشت کوئی بڑی مجبوری رہی ہوگی، ورنہ اپنے مخصوص رکھ رکھاؤ کو برقرار رکھنے والے اِس اعتدال پسند شخص نے خود داری اور انا کو کبھی بھی نظر انداز نہیںکیا چاہے وہ دربارِ اودھ میں حاضری کی بات ہو ، نواب باندہ کا معاملاتِ مقدمہ سے بے توجہی یا پھر دلّی کالج کی پروفیسری کا معاملہ۔ جن ناقدین نے نفسیاتی نقطۂ نظر سے مطالعہ کیا ہے وہ بھی اِس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ معیار ومقام کو برقرار رکھنے والا یہ شخص مطلبی، احسان فراموش، کینہ پرور یا حاسد نہیں تھا۔
غالب کی وفات کے سو سال بعد تک یہی ذکر ہوتا رہا کہ وہ عین جوانی میں ”جُوں توں”، ”گِرتے پڑتے”باندہ پہنچ گئے۔ مگر اِس پر توجہ نہیں دی گئی کہ موصوف لکھنؤ سے باندہ کیسے، کس طرح پہنچے؟ میرے نزدیک اِس خطّہ (لکھنؤ سے باندہ) کی بڑی اہمیت ہے کہ اِس یادگار سفرِ کلکتہ کی وجہ سے غالب کے جو نئے دوست بنے اُن میں دیوان محمدعلی اور مولوی سراج الدین احمد کا تعلق اِسی خطّے سے تھا۔ غالب نے دونوںحضرات کو فارسی میں سب سے زیادہ خطوط لکھے ہیں (محمدعلی کو ٣٧ اور سراج الدین احمد کو لکھے گئے ٥٢خط دستیاب ہیں)۔ یہ خطوط رسمی نہیں، محبت اور یگانگت کے سرچشمے ہیں۔ تو پھر اس اہم نکتہ پر مدلّل گفتگو کیوں نہیں ہوئی؟ اِس پہلو کے ساتھ ساتھ میں نے زمینی حقائق کی روشنی میں، وہ تاریخی اور جغرافیائی شواہد بھی تلاش کیے ہیں جو مکمل سفر کو سمجھنے میں مزید معاون ہوں گے۔
١٩٦٩ء میں عالمی سطح پر منعقد ہونے والی غالب تقریبات کے بعد سید اکبر علی ترمذی کی تلاش وجستجو کی بدولت رفتہ رفتہ جو تحریریں خصوصاً فارسی خطوط سامنے آئے ہیں اُن سے باندہ سے کلکتہ تک کی تفصیلی روداد معلوم ہوتی ہے مگر جس فردِ واحد کے توسط سے یہ منظر نامہ اُبھرا، اُس کی شخصیت اور غالب جیسے اناپرست فنکار کی اُن سے بے پناہ اُنسیت پر بھرپور توجہ نہیں دی گئی ہے۔ مشکل گھڑی میں کام آنے والی اِس مقناطیسی شخصیت کا نام ہے دیوان محمد علی جنھیں غالب نے نہایت تعظیم وتکریم اور عجزوانکسار کے ساتھ مولوی محمد علی خاں (صدر امین باندہ) کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ دونوں کی پہلے سے کوئی شناسائی نہیں تھی لیکن کج کُلاہ شاعر اُن کے آبائی وطن سے ہوتے ہوئے آرہا تھا۔ شاید مٹی کی مہک کی یہ کشش اپنی جانب راغب کرتی ہے۔
غالب پہلی ہی ملاقات میں محمد علی کے کیوں گرویدہ ہوگئے؟ اور محمدعلی نے کیوں مشفقانہ اورمربیانہ رویّہ اختیار کیا؟ بلکہ کلکتہ میں بھی اپنے عزیزوں اور اُن کے دوستوں مثلاً سراج علی خاں، مولوی سید ولایت حسن، نواب سید اکبر علی خاں طباطبائی ،نور الدین علی وغیرہ کو غالب کی ممکن مدد کے لیے خطوط لکھے اور برابر خبرگیری کرتے رہے۔ غالب کی بھی دوستی اوروضع داری دیکھیے کہ احسانات کا شکریہ ادا کرنے کے لیے واپسی پر باندہ میں اُن کے دولت کدہ پر قیام کرتے ہیں۔
پنشن کی بحالی کے یقین اور ناکامی کے عارضی احساس کی کسک کے مابین شہر باندہ کا منظر نامہ، نا اُمیدی میں اُمید کی کرنوں کو روشن کرتا ہے۔ اِس میں نہ صرف پیش آئند سفر کے اخراجات کی فکر، بیماری کی اذیت، شفا کے ساتھ مالی مدد کی مسرت ہے بلکہ مشفق، مربی اور قدرداں علم دوست ملنے کی خوشی کا شدید احساس بھی ہے۔ رابطوں کی کڑیوں کو ہی نہیں بلکہ دلوں کو جوڑنے والے واقعات اور حسین لمحات کی بازیافت سے کیوں اجتناب برتا گیا؟ اِس نفاست، نزاکت ، عقیدت، محبت اور میل ومروت کو باقاعدہ احاطۂ تحریر میں لینے کے بجائے فوقیت لکھنؤ، الٰہ آباد اور بنارس کو ملی، باندہ اور حلقۂ باندہ کو نہیں۔ کیوں اِس اہم انسانی شرافت، اور مشرقی اقدار کے جذباتی رشتے سے چشم پوشی اختیار کی گئی، حیرت واستعجاب کا لمحہ ہے۔ غالب کی زندگی میں اُن کے طویل ترین سفر کا یہ وہ پڑاؤ ہے جہاں موصوف باقاعدہ علاج کراتے ہیں، تازہ دم ہوکر رختِ سفر باندھتے ہیں۔ غور کیجیے باندہ میں نہ صرف بقیہ سفر کا پورا بندوبست ہوتا ہے بلکہ کلکتہ کے دورانِ قیام مطلوبہ چیزیں بھی مہیا کرائی جاتی ہیں اور پھر دہلی تک پہنچنے کا اہتمام بھی۔ اور ان سب کا مرکز ومحور ہے دیوان محمدعلی۔
اہمیت، افادیت اور معنویت کا جو خاکہ مرتب ہوتا ہے اُس میں جدید تحقیقی تناظر میں باندہ سے کلکتہ اور پھر واپسی پر دہلی تک بخیروعافیت پہنچنے کی روداد مکتوباتِ غالب بنام دیوان محمدعلی سے مربوط ہوجاتی ہے۔ جس کا Credit سید اکبر علی ترمذی کی کتاب Persian Letters of Ghalib کو پہنچتا ہے۔ دریافت کو مزید استحکام بخشنے میں لطیف الزماں اور پرتوروہیلہ نے اپنے نام درج کرائے ہیں۔ ان قابلِ تعریف شخصیات کی گراں قدر خدمات کے تعلق سے جمیل جالبی نے ”کلیاتِ مکتوباتِ فارسی غالب” میں لکھا ہے:
”ادب عالیہ کا وہ انمول خزانہ جو ڈیڑھ سو سال سے مقفل پڑا تھا، یکدم کُھل گیا ہے”۔ بلکہ اکیسویں صدی میں اس خصوصی نکتہ پر کام کرنے کے لیے دروا ہوتے ہیں۔
خاکسار نے سب سے پہلے غالب کے باندہ تک پہنچنے کی مکمل تفصیل کو اِس کتاب میں شامل کرکے مکمل رودادِ سفر کی شکل دینے کی کوشش کی ہے۔ دوئم یہ کہ وہ محترم شخصیت جو نواب باندہ اور غالب دونوں کو عزیز تھی، اُن کی شخصیت اور نسل در نسل غالب سے اُنسیت کی روداد رقم کی ہے اور حقائق وشواہد سے یہ واضح کرنے کا جتن کیا ہے کہ دیوان محمدعلی کے نام محض تین ساڑھے تین سال میں لکھے گئے تین درجن سے زائد خطوط نہ صرف تاریخی حیثیت کے ہیں بلکہ اُس دور کے شعری منظر نامے کے بھی رہینِ منت ہیں۔
دورِ حاضر کے محققین اور ناقدین نے Persian Letters of Ghalibکی اشاعت کا خیر مقدم کیا لیکن مذکورہ مسودہ کی حصولیابی کے پس منظر کو تہہ بہ تہہ کھنگالنے کا جتن نہیں کیا۔ مکتوب الیہ اور مکتوب نگار کے مابین عیاں ہونے والے قریبی ربط کے اعتراف کے باوجود یہ جاننے کی کوشش نہیں کی گئی کہ محمدعلی صاحب کون تھے؟ اُن کا ادبی سرمایہ کہاں اور کس حال میں ہے؟ اُس ادب شناس مُحبِ نے باندہ میں موجود غالب کے عزیزوں سے بڑھ کر غالب کی مدد کیوں کی؟ اور کیوں اپنے دوستوں اور عزیزوں سے بھی اس بابت متواتر درخواست کرتا رہا؟ گنجینۂ معنی کے طلسم کو تلاش کرنے میں مسیحا صفت شخص سے گُریز کیوں برتا گیا؟ اِس کا کوئی تشفی بخش جواب وجواز نہیں تھا جسے تلاش کرنا ضروری تھا۔
میں نے مذکورہ عنوان کے تحت اپنی اِس کتاب میں جو اسباب وعلل تلاش کیے ہیں وہ اِن دلائل پر مبنی ہیں کہ غالب کی زندگی میں شائع ہونے والے خطوط میں اُن کی مرضی کے مطابق وہ آٹھ خط جو دیوان محمدعلی کے نام تھے اور جن کے مطالعہ سے مکتوب الیہ اور قیامِ باندہ پر کوئی خاص روشنی نہیں پڑتی تھی قارئین کے پیش نظر تھے۔ اِن میں باندہ اور وہاں کے عزیزوں کا ذکر اس وجہ سے بھی ضمنی ہوا کہ وہ ١٨٥٧ء میں معتوب ہوئے، راہِ فرار اختیار کی۔ دوسرا سبب یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دیوان محمد علی کی حیات اور ان کے ادبی کارناموں پر اس لیے توجہ کم دی گئی کہ ١٨٣١ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس لیے بآسانی مواد فراہم نہیں تھا اور”جوںتوں، گِرتے پڑتے” ہمارے اکثر محققین اور ناقدین کام کے قائل نہیں البتہ دوچار سر پھرے نظر آہی جاتے ہیں جن کی کاوش کے نتیجہ میں ایسے مخطوطات اور مسودات منظر عام پر آئے جنھوں نے غوروفکر کے نئے دروا کیے ہیں۔اور اب نئے سرے سے اِس جانب کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
Ghalib
غالب کے سفرِ کلکتہ کے آغاز سے اِس وقت (دسمبر ٢٠٢٠ئ) تک کے کینوس کو سامنے رکھیں تو اِس طویل وقفے کے شواہد کے دو حصّے ہوسکتے ہیں۔ پہلا ”پنج آہنگ” سے ١٩٦٩ء تک، دوسرا سید اکبر علی ترمذی کی دریافت ”نامہ ہائے فارسی غالب” سے آج تک۔ حصہ اول کے تحت ایک صدی سے زائد عرصہ تک یہی بحث ہوتی رہی کہ وہ مصیبتوں کے دور میں، سمتِ مخالف علاج وامداد کے لیے اپنے عزیزوں کے پاس باندہ گئے۔ شواہد موجود ہیں کہ وہ ایک ڈیڑھ ماہ میں تقریباً ٹھیک ہوگئے اور جلد ہی مطلوبہ رقم بھی مل گئی تو پھر مزید تین چار ماہ وہاں قیام کیوں کیا؟ حصہ دوم باندہ میں ملے نئے دوست محمدعلی پر مبنی ہے۔ ادب شناس اور علم نواز دیوان محمدعلی علاج وامداد کا وسیلہ بنتے ہیں۔ قُربت جلد ہی دوستی میں تبدیل ہوجاتی ہے مگر بُزرگ اور خُوردکی یہ دوستی ضرورتاً یا مصلحتاً وجود میں نہیں آئی تھی بلکہ ذہنی اور فکری ہم آہنگی نے جلد ہی بے تکلّفانہ مراحل طے کرلیے تھے۔ محمدعلی، غالب کی انا اور خود پسندی کو ملحوظ رکھتے تھے اور غالب اُن کی دانش ورانہ فکراور فارسی پر عبور کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے تھے نیز اُن کے بے لوث مشفقانہ مشوروں پر عمل کرتے تھے جن کے غماز ٣٧دستیاب خطوط ہیں۔ غالب کی عظمت، اُن کی دانشورانہ فکروشعور اور فنّی گرفت کی رہینِ منت ہے جس میں تاثیر کے ساتھ جدّت اور نُدرت ہے۔ اندازِ جُداگانہ اُن کے فارسی اور اردو خطوط میں جلوہ گر ہے۔ ایسے ان گنت خطوط ہیں جن میں انھوں نے اپنے دل کی بات کہی ہے لیکن دیوان محمد علی کے نام لکھے گئے فارسی خطوط جو پچھلی چند دہائیوں میں ترمذی، لطیف الزماں اورپرتوروہیلہ کی بدولت اردو قاری تک بھی پہنچے ہیں، ان میں دلی کیفیات وجذبات کے ساتھ معاملہ فہمی اور اپنے مصائب ومسائل سے نکلنے کی حکمتِ عملی کے متعدداشارے ہیں۔ تیس بتیس برس کی عمر میں غالب کے نوکِ قلم سے صفحۂ قرطاس پر اُبھرنے والے یہ قیمتی اشارے آج ان گنت کہانیوں کے تانے بانے بُننے میں معاون ثابت ہورہے ہیں۔نیز اُن کے غیر معروف مگر اہم ممدوح الیہ کی مثالی شخصیت سے متعارف کرا رہے ہیں۔
تحریر : پروفیسر صغیر افراہیم سابق صدر شعبۂ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ s.afraheim@yahoo.in