ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران کے وزیر برائے انٹیلی جنس امور محمود علوی نے جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کے قتل کے حوالے سے نئی انکشافات کیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جوہری سائنسدان کو قتل کرنے میں ملوث مرکزی ملزم اور اس واقعے کا ماسٹر مائنڈ پاسداران انقلاب میں جوہری اور میزائل شعبے کا ایک سینیر اہلکار تھا جسے فوج سے برطرف کردیا گیا تھا۔ وہ فخری زادہ کو قتل کرنے کا منصوبہ کرنے مگر کارروائی پرعمل درآمد سے قبل ہی ملک چھوڑ گیا تھا۔
چند روز قبل ایرانی انٹیلی جنس وزیر محمود علوی نے کہا تھا کہ مقامی سطح پر فخری زادہ کے قتل کے لیے لاجسٹک مدد فراہم کی گئی۔ مدد فراہم کرنے والا ایک مقامی ملزم مسلح افواج میں کام کرچکا ہے۔
سوموار کے روز ایک ٹی وی پروگرام میں محمود علوی نے کہا کہ فخری زادہ کے قتل سے پانچ روز قبل انٹیلی جنس الرٹ جاری کیا گیا تھا جس میں بتایا گیا تھا کہ دشمن فخری زادہ کو نشانہ بنا سکتا ہے۔
انٹیلی جنس وزیر نے کہا کہ چونکہ وزارت انٹیلی جنس کو مسلح افواج میں انٹیلی جنس کام کرنے کی اجازت نہیں تھی اس لیےوزارت نے مسلح افواج سے کہا کہ وہ ایک نمائندہ مقرر کرے تاکہ وہ فخری زادہ کی زندگی کو لاحق خطرات کا تدارک کیا جاسکے مگر نمائندہ مقرر کرنے قبل ہی فخری زادہ کو قتل کردیا گیا۔
خیال رہے کہ ایران کے جوہری سائنسدان فخری زادہ کو 27 نومبر 2020ء کو تہران میں ابسر بدماوند کے مقام پرخود کار ہتھیاروں سے حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔ ایران نے اس کارروائی کا الزام اسرائیل پرعاید کیا تھا تاہم اسرائیل نے اس پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا۔
محسن فخری زادہ کو ایرانی جوہری پروگرام کا خالق قرار دیا جاتا تھا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ فخری زادہ کے قتل سے ایران کے ایٹمی اور میزائل پروگرام کو ایک بڑا دھچکا لگا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ اسرائیل بار بار اس طرح کے حملے کرکے ایران کے جوہری پروگرام کو روکنا چاہتا ہے۔