کشمیر (اصل میڈیا ڈیسک) چوبیس ملکوں کے سفارت کاروں کا ایک وفد بھارتی زیر انتظام کشمیر کے دو روزہ دورے پر بدھ سترہ فروری کو سری نگر پہنچ گیا ہے۔ تجزیہ کار تاہم اسے ‘سرکاری اسپانسرڈ وِزِٹ‘ قراردے رہے ہیں۔
یورپی یونین کے سفیر اُوگو آسٹُوٹو کی قیادت میں چوبیس ملکوں کے سفارت کاروں کا ایک وفد بھارتی کشمیر کے دو روزہ دورے پر ہے۔ دورے کے دوران انہیں بھارتی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر میں سکیورٹی، بالخصوص پچھلے دنوں ‘کامیابی کے ساتھ‘ منعقدہ بلدیاتی انتخابات اور تازہ ترین سیاسی صورت حال کی جان کاری دی جائے گی۔
مودی حکومت کی طرف سے اگست سن 2019 میں جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت ختم کر دینے اور ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے کے بعد غیر ملکی سفارت کاروں کا یہ تیسرا دورہ ہے۔
حکومتی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ سابقہ دوروں کے برخلاف اس مرتبہ سفارت کاروں کا وفد سری نگر سے باہر بھی جائے گا اور ایک سرکاری کالج میں طلبہ سے براہ راست بات چیت بھی کرے گا۔ سول سوسائٹی گروپوں، منتخب نمائندوں اور مقامی صحافیوں کی بھی وفد کے ساتھ ملاقات طے ہے۔
وفد کل جمعرات کو جموں جائے گا، جہاں گورنر منوج سنہا کے علاوہ سرکاری عہدیداروں اور عوامی نمائندوں کے ساتھ ان کی ملاقات ہو گی۔
کشمیر میں سیاسی تجزیہ کاروں کا تاہم کہنا ہے کہ غیر ملکی سفارت کاروں کے اس دورے کے دوران بھی کشمیر اور کشمیری عوام کو درپیش حقیقی مسائل اور مشکلات کا صحیح اندازہ نہیں ہو سکے گا۔
سری نگر سے صحافی ظہور حسن بھٹ نے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ”یہ تو ایک طرح سے اسپانسرڈ وزٹ ہے۔ حکومت کی ایجنسیاں ان سفارت کاروں کو بلاتی ہیں اور پہلے سے ہی یہ طے ہوتا ہے کہ کون کون لوگ وفد کے اراکین سے ملاقات کریں گے۔ اگر صحافی ملیں گے تو وہ کون کون صحافی ہوں گے، اگر عوامی نمائندے ہوں گے تو وہ کون کون ہوں گے۔ یہ سب کچھ پہلے سے ہی طے ہوتا ہے۔”
ظہور بھٹ کا کہنا تھا کہ یہ ٹھیک ہے کہ وفد کے اراکین سری نگر کے آس پاس کے علاقوں کا دورہ بھی کریں گے لیکن اس دورے کے دوران بھی وہ صرف ان’سلیکٹیڈ لوگوں‘ سے ہی ملاقات کر سکیں گے، انتظامیہ جنہیں ضروری سمجھے گی۔
بھٹ نے مزید بتایا کہ پچھلے دورے کے دوران غیر ملکی سفارت کار توصرف ایک آرمی کیمپ میں جا کر بیٹھ گئے تھے اور وہیں سے کشمیر کی ‘زمینی صورت حال‘ کے بارے میں معلومات حاصل کر لی تھیں۔
کشمیری صحافی ظہور حسن بھٹ کا کہنا تھا، ”کشمیر کے عوام اس دورے سے بالکل لاتعلق ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اس طرح کے دورے سے کوئی فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔ حکومت پہلے ہی طے کر لیتی ہیں کہ کن لوگوں کو کشمیر بھیجنا ہے، انہیں وہاں کیا چیزیں دیکھانی ہیں اور کن لوگوں سے ملاقاتیں کروانی ہیں۔”
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس دورے کی افادیت کتنی ہے اس کا اندازہ اسی بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت بیشتر کشمیری رہنما جیلوں میں بند یا گھروں میں نظر بند ہیں۔ حتی کہ بھارت نواز رہنما بھی نظر بند ہیں۔
اس دورے میں یورپی یونین کے علاوہ فرانس، اسپین، بیلجیم، اٹلی، سویڈن، آئرلینڈ، ہالینڈ، فن لینڈ، چلی، برازیل، کیوبا، بولوویا، پرتگال، بنگلہ دیش، ملاوی، آئیوری کوسٹ، گھانا، سنیگال، ملائشیا، تاجکستان اور کرغزستان کے سفارت کار بھی شامل ہیں۔
اگست سن 2019 میں جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور اسے مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے کے بعد غیر ملکی سفارت کاروں کا یہ تیسرا دورہ کشمیر ہے۔
اس سے قبل گزشتہ برس غیر ملکی سفارت کاروں کے دو الگ الگ گروپوں نے جموں و کشمیر کا دورہ کیا تھا جبکہ پچھلے برس یورپی یونین کے سفارت کاروں کا ایک مجوزہ دورہ کووڈ انیس کی وبا کے سبب ملتوی کردیا گیا تھا۔ سابقہ دونوں دوروں کی افادیت پر سوالات اٹھائے گئے تھے۔
بھارت کی کشمیر کے حوالے سے پالیسیوں اور اقدامات پر تنقید کرنے والی برطانوی رکن پارلیمان ڈیبی ابراہمس کو گزشتہ برس فروری میں حکومت نے کشمیر جانے سے روک دیا تھا۔ انہیں دہلی کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچنے کے بعد ملک میں داخل ہونے سے منع کر دیا گیا تھا۔ نئی دہلی کا تاہم کہنا تھا کہ ڈیبی ابراہمس کے پاس مناسب ویزا نہیں تھا اس لیے انہیں بھارت میں داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔