جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) جرمنی نے عالمی جوہری معاہدے کے تئیں ایران کی عدم تعمیل پر تشویش کا اظہار کیا تھا جس کے بعد اس معاہدے کو بچانے کی کوششیں مزید تیز ہو گئی ہیں۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بدھ سترہ فروری کو ایرانی صدر حسن روحانی سے ٹیلی فون پر بات چیت کے دوران سن 2015 کے جوہری معاہدے پر ایران کی عدم تعمیل پر تشویش کا اظہار کیا۔
جرمن چانسلر کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق میرکل نے بات چیت کے دوران اس بات پر زور دیا ہے کہ جوہری معاہدے کے حوالے سے مشترکہ جامع لائحہ عمل (جے سی پی او اے) پر دستخط کرنے والے ممالک اس معاہدے کو بچانے میں دلچسپی رکھتے ہے۔
سن 2015 میں ہونے والے اس معاہدے کا مقصد ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے باز رکھنا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ایران عالمی معائنہ کاروں کو تفتیش کے لیے اپنی جوہری تنصیبات تک رسائی دے گا اور اس کے بدلے میں اس پر عائد عالمی پابندیاں مرحلہ وار ہٹا لی جائیں گی۔
جرمن چانسلر کے ترجمان اسٹیفان زائبرٹ کا کہنا تھا کہ فون پر بات چیت کے دوران میرکل نے اس بات پر، ”تشویش کا اظہار کیا کہ جوہری معاہدے کے تحت ایران اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں نا کام رہا ہے۔”
جرمن چانسلر کا کہنا تھا، ”یہ مثبت اشاروں کا وقت ہے جس سے اعتماد پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ تنازعے کے سفارتکاری کے ذریعے حل ہونے کے مواقع میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔”
انگیلا میرکل نے ایرانی صدر حسن روحانی سے ایسے موقع پر بات چیت کی ہے جب امریکا اور یورپ کے تین بڑے ملک یہ صلاح و مشورے کر رہے ہیں کہ اس جوہری معاہدے کو کیسے بچایا جائے۔
جمعرات کے روز ہی فرانس کے وزیر خارجہ زاں ایف لو دریان اس موضوع پر بات چیت کے لیے اپنے جرمن اور برطانوی ہم منصب سے پیرس میں ملاقات کرنے والے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکین بھی اس میٹنگ میں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے شریک ہوں گے۔
جرمنی، فرانس اور برطانیہ چاہتے ہیں کہ اس جوہری معاہدے کو بچا لیا جائے اور امریکا ایک بار پھر سے اس پر غور کرے جس سے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ 2018 میں دستربردار ہو گئے تھے۔ صدر بائیڈن نے اس میں دوبارہ شامل ہونے کا عندیہ تو دیا تھا تاہم ان کا اصرار اس بات پر ہے کہ ایران کو چاہیے کہ پہلے وہ اس معاہدے پر پوری طرح سے عمل کرے۔
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی فون پر بات چیت کی خبر آتے ہی ایران کے رہبر اعلی آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ اگر امریکا حقیقت میں اس معاہدے پر نظر ثانی کرنا چاہتا ہے تو اسے الفاظ کا سہارا لینے کے بجائے عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
بدھ کے روز ٹیلی ویژن پر اپنے ایک خطاب کے دوران انہوں نے کہا، ”ہم نے بہت سے اچھے الفاظ اور وعدے سنے ہیں، تاہم انہیں عملی جامہ پہنانے کے بجائے حقیقتاً اس کے بر عکس اقدامات کیے گئے ہیں۔”
خامنہ ای نے مطالبہ کیا کہ اگر امریکا یہ چاہتا ہے کہ ایران جوہری معاہدے پر عمل کرے تو پہلے اسے پابندیاں اٹھانی ہوں گی۔ ان کا کہنا تھا، ”محض الفاظ اور وعدے کوئی بہت اچھی بات نہیں ہے۔ اس بار ہم دوسری جانب سے بھی عملی اقدامات چاہتے ہیں اور پھر ہم بھی اقدام کریں گے۔”
ایران کا کہنا ہے اگر امریکا نے آئندہ ہفتے تک ان پابندیوں کو ختم نہیں کیا جو ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر عائد کی تھیں تو وہ جوہری معائنہ کاروں کی رسائی بھی روک سکتا ہے۔
آئی اے ای اے کا مجوزہ دورہ ایران عالمی جوہری توانائی ادارے (آئی اے ای اے) کا کہنا ہے کہ باہمی متفقہ حل تلاش کرنے کی امیدوں کے ساتھ ادارے کے ڈائریکٹر جنرل رفائل گراسی سینیئر ایرانی حکام سے بات چیت کے لیے آئندہ سنیچر کے روز تہران کا دورہ کرنے والے ہیں۔
ادارے کا کہنا ہے کہ گراسی اپنے دورے کے دوران ایرانی حکام سے اس بات پر ایک معاہدہ کرنا چاہتے کہ عالمی جوہری معائنہ کاروں کی ایرانی جوہری تنصیبات تک رسائی برقرار رہے تاکہ وہ اپنی تفتیشی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔
مبصرین کا کہنا ہے اس جوہری معاہدے کو بچانے کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں اور عالمی برادری کو اگر ایسا کرنا ہے تو اسے اس پر تیزی سے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ مغربی ممالک میں اس بات پر تشویش پائی جاتی ہے کہ ایران بہت تیزی سے اس شرح تک یورینیم کی افزودگی کی جانب بڑھ رہا ہے جس سے جوہری ہتھیار تیار کیے جاسکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں نے حال ہی میں اس بات کی تصدیق کی تھی کہ ایران جوہری معاہدے کی پاسداری نہ کرتے ہوئے اپنی تنصیبات میں یورینیم کی 20 فیصد تک افزودگی شروع کر دی ہے۔ جبکہ جوہری معاہدے کی رو سے ایران کو یورینیم کی صرف 3.67 فیصدکی شرح تک افزودگی کی اجازت ہے۔
مغربی ممالک کو جہاں اس بات پر تشویش ہے وہیں اسی برس جون میں ایران میں صدارتی انتخابات ہونے والے ہیں اور ایسی صورت میں جوہری معاہدے کو بچانا مزید پیچیدہ عمل ہوسکتا ہے۔