نئی دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں زرعی قوانین کی مخالفت کرنے والے کسان مظاہرین کی جانب سے بطور احتجاج چار گھنٹے کی ریل روکو مہم سے ٹرینوں کی آمد و رفت پر برا اثر پڑا ہے۔
بھارت میں زرعی قوانین کی مخالفت کرنے والے مظاہرین نے جمعرات 18 فروری کو بطور احتجاج چار گھنٹے کے لیے ریل روکو مہم شروع کی جس کا کئی ریاستوں میں ٹرینوں کی آمد و رفت پر برا اثر پڑا۔ ریل روکو مہم مقامی وقت کے مطابق دو پہر 12 بجے سے شام چار بجے تک جاری رہی۔
بھارت کی بیشتر کسان تنظیمیں حکومت سے نئے زرعی قوانین واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہیں اور اس کے لیے گزشتہ تقریبا ڈھائی ماہ سے دارالحکومت نئی دہلی کے مضافاتی علاقوں میں کسانوں کے دھرنے جاری ہیں۔ اسی سلسلے میں حکومت پر مزید دباؤ ڈالنے کے لیے گزشتہ ہفتے ریل روکو مہم کی شکل ميں احتجاج کا اعلان کیا گيا تھا۔
اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے حکومت نے سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے ہیں اور مختلف حساس علاقوں میں پولیس اور نیم فوجی دستوں کے اضافے دستے تعینات کیے گئے ہیں۔
ریل روکو مہم کا اثر ریاست پنجاب، ہریانہ، اتر پردیش اور بنگال جیسی ریاستوں میں کسان مظاہرین نے بطور احتجاج ریل ٹریک پر بیٹھ کر نعرے بازی کی اور دھرنا دیا، جس کی وجہ سے مختلف ریل سروسز متاثر ہوئیں۔ حکام نے صورت حال کے پیش نظر مختلف روٹوں پر ٹرینوں کو پہلے ہی اسٹیشنوں پر روک دیا اور نتيجتاً درجنوں ٹرینیں گھنٹوں کی تاخیر کا شکار ہو گئيں۔
اس کا سب سے زیادہ اثر ریاست پنجاب اور ہریانہ میں دیکھنے کو ملا جہاں تقریباً تمام ریل راستوں پر ہزاروں کی تعداد میں کسان ریل ٹریک پر بیٹھ گئے۔ جمعرات کو اس علامتی احتجاج میں خواتین کی بھی ایک بڑی تعداد نے حصہ لیا ہے۔ میڈیا میں نشر ہونے والی تصاویر میں خواتین کی ایک بڑی تعداد کو ریل ٹریک پر دھرنا دیتے ہوئے دیکھا گيا۔
کسانوں کے احتجاج ميں عورتيں بھی پيش پيش تاہم اطلاعات کے مطابق بعض ریاستوں میں کسان ریل روکو احتجاج اس لیے نہیں کر پائے کیونکہ پولیس نے کسان مظاہرین کو ریل ٹریک کی جانب جانے سے منع کر دیا۔ اس کی وجہ سے بعض علاقوں میں مظاہرین نے پولیس کے رویے کے خلاف بھی احتجاج کیا۔
’بھارتی کسان یونین‘ کے رہنما رکیش ٹکیت نے جمعرات کو ’ریل روکو‘ مہم کے آغاز سے قبل کہا کہ ان کا احتجاج پر امن ہوگا اور، ’جو مسافر اس کی وجہ سے راستے میں پھنس جائیں گے، انہیں کسان پانی اور کھانا مہیا کر کے اپنے مسائل سے انہیں آگاہ بھی کریں گے۔‘‘
ان کا کہنا تھا، ’’ہم کسان ایسے مسافروں کو پانی، لسّی، کھانا اور پھل مہیا کریں گے۔ حصار میں اس حوالے سے ہماری آج ایک ریلی ہے اور اس کے بعد ممبئی میں جمعے کو ہے۔ ہم ملک بھر میں ریلیاں کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کیونکہ کسان اس وقت مشکل دور سے گزر رہا ہے۔‘‘
اس دوران یو پی میں سماجوادی پارٹی کے کارکنان نے کسانوں کی حمایت میں اسبملی کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ بھارتی تاریخ میں پہلی بار پیٹرول کی قیمتیں 100 روپے سے بھی زیادہ ہوگئی ہيں اور بہت سے لوگ افراط زر کی بڑھتی شرح سے بھی پریشان ہو کر کسانوں کے ساتھ احتجاج پر اتر آئے ہیں۔
سرخ ٹوپیاں پہنے اور ہاتھوں میں سرخ پرچم تھامے بھارتی کسان ممبئی سے 165 کلو میڑ دور واقع علاقے ناشک سے چھ دن کی پیدل مسافت طے کرتے ہوئے ممبئی پہنچے۔ ان کی مفلسی کا یہ عالم ہے کہ مارچ کی گرمی میں کئی کسان ننگے پاوں یہاں تک پہنچے ہیں۔
مودی حکومت نے گزشتہ برس جن متنازعہ زرعی قوانین کو متعارف کرايا تھا، ان کے خلاف گزشتہ دو ماہ سے بھی زیادہ وقت سے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت اور کسانوں کے درمیان اب تک بات چیت کے گیارہ ادوار ہو چکے ہیں، جن ميں کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
حکومت ان قوانین میں ترامیم کا وعدہ کر رہی ہے لیکن کسان تنظیمیں ان قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہی ہيں۔ کسانوں کو خدشہ ہے کہ ان قوانین کی وجہ سے انہیں ان کے اناج کی فروخت کے عوض مناسب دام نہیں ملیں گے اور مقامی منڈیوں پر نجی تاجروں اور بڑے کارپوریٹ اداروں کا قبضہ ہو جائے گا۔