امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا کا کہنا ہے کہ 2015 کے جس جوہری معاہدے سے ٹرمپ نے امریکا کو الگ کر لیا تھا، اس میں وہ دوبارہ شامل ہونے پر غور کرے گا۔
امریکا نے کہا کہ وہ سن 2015 کے بین الاقوامی جوہری معاہدے پر گفت و شنید کے لیے ایران سے ملاقات کرنے کو تیار ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے 2018 میں اس معاہدے سے امریکا کو الگ کرتے ہوئے ایران پر یکطرفہ طور پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔
تاہم صدر جو بائیڈن کا موقف ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام کی نگرانی اور اس پر کنٹرول کے لیے یہ معاہدہ موثر ہے۔ یہ جوہری معاہدہ مشترکہ جامع لائحہ عمل (جے سی پی او اے) کے نام سے معروف ہے اور اس پر دستخط کرنے والے ممالک اس معاہدے کو بچانے میں دلچسپی بھی رکھتے ہیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کا کہنا تھا، ”امریکا ایران کے جوہری پروگرام پر بات چیت کے لیے جرمنی سمیت اقوام متحدہ کے پانچوں مستقل اراکین اور ایران کے درمیان ہونے والی میٹنگ کے لیے یورپی یونین کے اعلی نمائندوں کے دعوت نامے کو تسلیم کریگا۔”
صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے اس ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ وہ ایران پر عائد پابندیوں کو ختم نہیں کرے گا۔
مارچ دو ہزار سترہ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے اپنی پہلی ملاقات میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے انتہائی مہذب انداز میں ان سے پوچھا کہ کیا ہم صحافیوں کے سامنے ہاتھ ملا لیں؟ میزبان ٹرمپ نے منہ ہی دوسری طرف پھیر لیا۔ بعد میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں سوال سمجھ ہی نہیں آیا تھا۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ اس بارے میں بات چیت کے لیے ایران امریکا سے ملاقات کے لیے تیار ہے یا نہیں۔ ایران نے امریکا کے اس معاہدے سے الگ ہونے کے بعد 2019 میں اس معاہدے پر عمل کرنا بند کر دیا تھا۔ اس نے واضح کر دیا ہے کہ سن 2015 کے معاہدے کے تحت یورینیم افزودہ کرنے کی جو حد مقرر کی گئی تھی وہ اس سے کہیں زیادہ 20 فیصد تک یورینیم افزودہ کر سکتا ہے۔
یورینیم کی اعلی درجے کی سطح تک افزودگی جوہری ہتھیاروں کے بنانے کا ایک ممکنہ طریقہ کار ہے تاہم ایران کا کہنا ہے کہ اس کے افزودگی کا پروگرام صرف توانائی کے مقاصد کے لیے ہے۔
جمعرات 18 فروری کو ہی جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے وزراء خارجہ نے اس سلسلے میں پیرس میں ملاقات کی تھی جس میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکین بھی ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے شریک ہوئے۔
اس میٹنگ کے بعد ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا، ”اگر ایران مشترکہ جامع لائحہ عمل (جے سی پی او اے) کے تحت کیے گئے اپنے وعدوں کو پورا کرے تو امریکا بھی اس پر عمل کرے گا اور پھر آخر میں وہ ایران کے ساتھ اس بارے میں بات چیت کے لیے بھی تیار ہے۔”
لیکن ایران نے ایک بار پھر اپنے اس موقف کا اعادہ کیا کہ چونکہ امریکا اس معاہدے سے الگ ہوا تھا اس لیے پہل اسے ہی کرنی چاہیے۔
ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا، ”پر شکوہ لفاظی اور ایران پر تمام تر ذمہ ادری عائد کرنے کے بجائے، یورپی یونین، اور تینوں یورپی ملکوں کو خود اپنے وعدوں کی پاسداری کرنی چاہیے اور ایران کے خلاف ٹرمپ کی معاشی دہشت گردی کی وراثت کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔” انہوں نے مزید کہا، ”ہم اقدامات کے بدلے عملی اقدامات کی پیروی کریں گے۔”
عالمی جوہری توانائی ادارے (آئی اے ای اے) کے ڈائریکٹر جنرل رفائل گراسی سینیئر ایرانی حکام سے بات چیت کے لیے آئندہ سنیچر کے روز تہران کا دورہ کرنے والے ہیں۔ گراسی اپنے دورے کے دوران ایرانی حکام سے اس بات پر ایک معاہدہ کرنا چاہتے ہیں کہ عالمی جوہری معائنہ کاروں کی ایرانی جوہری تنصیبات تک رسائی برقرار رہے تاکہ وہ اپنی تفتیشی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔
تاہم ایران کا کہنا ہے کہ اگر امریکا نے آئندہ اتوار تک ان پابندیوں کو ختم نہیں کیا جو اس نے 2018 میں عائد کی تھیں تو ایران عالمی جوہری توانائی ادارے (آئی اے ای اے) کے حکام پر پابندیاں عائد کر سکتا ہے۔